کہ شاہ صاحب، مفتی صاحب کو اپنا شاگرد کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے اور اپنی مجلسوں میں مفتی صاحب کے کمال علم اور علوئے مرتبہ کا بلند الفاظ میں تذکرہ فرماتے رہتے تھے۔ ایک مجلس میں فرمایا:
’’درشاگردان من دو کس خوب بودند، مولوی رفیع الدین ومولوی الٰہی بخش‘‘
ترجمہ: میرے شاگردوں میں دوشخص بہت عمدہ ہوئے، مولوی [شاہ ] رفیع الدین اور مولوی[مفتی ]الٰہی بخش۔
اوریہ بھی شاہ صاحب کی کمال اعتماد کی دلیل ہے، کہ جب نواب ضابطہ خاں نے حضرت شاہ صاحب سے ،اپنی ریاست کی سرپرستی کرنے اور مفتی اعظم کی حیثیت سے ریاست میں قائم فرمانے کی درخواست کی اور شاہ صاحب کی اورمعذرت کے باوجود اصرار کرتا رہا، تو شاہ صاحب نے حضرت مفتی صاحب کو اپنا قائم مقام بناکروہاں بھیج دیاتھا۔
اجازت وبیعت: مفتی صاحب نے درسیات کے علاوہ ،سلوک وتصوف کی متعدد اہم تصانیف اور دیگر فنون کی اہم کتابیں ،شاہ عبدالعزیزسے پڑھیں اور مراتب عرفان وسلوک کی علمی واقفیت کے علاوہ اصلاح باطن اور سلوک وتصوف کی ،عملی تربیت بھی حاصل کی ۔
مفتی صاحب نے روحانی سفر کا سلسلہ جاری رکھا اور سلوک کی راہ نوردی کرتے رہے، جو مرشدکامل ملتا اس سے ضرورفیضیاب ہوتے، اس سلسلہ نقشبندیہ کی ترتیب پرسیرسلوک کا خیال آیا، اس کی جستجو میں بھی بادیہ پیمانی کی دوران سفر، بھوپال کے اطراف میں ایک درویش سے ملاقات ہوئی، جس نے کہا کہ جب تک تم اپنے شاہ بھائی کمال الدین کاندھلوی سے بیعت نہ ہوگے اس وقت تک وہ چیز حاصل نہ ہوگی، جس کی تمہیں تلاش ہے۔
یہ مفتی صاحب کی بے نفسی اور فنا خودی تھی کہ انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی اور شاگرد شاہ کمال الدین کاندھلوی سے اس کو حاصل کرکے مجمع البحرین یعنی خانوادہ ولی اللّٰہی اور نقشبندیہ مجددیہ کے سلسلوں کے جامع بن گئے، شاہ عبدالعزیز کے اشارہ وایماء پر شاہ احمد شہید بریلوی