تبدیل کرکے جَحش رکھا۔ابن اثیر نے اپنی جامع میں ازواج کی ترتیب میں، حضرت عائشہؓ سے ابتدافرمائی ہے،پھر حضرت حفصہؓ، پھرام سلمہؓ پھر زینب ،ؓپھر ام حبیبہ ؓ،پھر صفیہؓ، پھر جویریہؓ، پھرسودہؓ،پھرمیمونہؓ۔ یہ ترتیب ان کی فضیلت کے اعتبارسے ہے، جیساکہ صاحب مطلب نے دعوی کیاہے، نکاح میں تقدیم وتاخیرکی وجہ سے نہیں ہے۔
سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، حضرت خدیجہ سے نکاح فرمایا ، پھرحضرت عائشہؓ سے،مشہور روایت کے مطابق، پھر حضرت سودہؓ سے، پھر حضرت حفصہؓ سے،پھرام حبیبہؓ سے،پھرحضرت ام سلمہ ؓ سے،پھرزینب بنت جحشؓ سے،پھرحضرت میمونہؓ سے، پھرحضرت جویریہ ؓسے، پھرحضرت صفیہ ؓسے ۔حضرت حفصہؓ سے ۳ ھ میںنکاح فرمایا،زینب بنت خزیمہ ہذلیہ سے بھی ۳ ھ میںنکاح فرمایا۔حضرت ام سلمہؓ سے ۴ھ میں،زینب بنت جحشؓ سے ۵ھ میں، حضرت ام حبیبہؓ سے ۶ھ میں ،رخصتی ۷ھ میں ہوئی۔ حضرت جویریہؓ سے ۶ھ میں،حضرت میمونہؓ اورحضرت صفیہؓ دونوں سے ۷ھ میں۔
دوسرا مسئلہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، تمام مؤمنین کی مائیں ہیں، جیسا کہ قرآن کریم کافیصلہ ہے۔مجاہد کی قرأت میں: ’’ہُوابٌ لَہُم ‘‘ہے کہ، رسول اللہ ا تمام مؤمنین کے باپ ہیں۔ کہاگیاہے کہ یہ ابی ابن کعب کی قرأت ہے۔
امام شافعی مختصر میں، ایک معنی بیان کرتے ہیں کہ ازواج مطہرات سے نکاح، کسی حال میں جائز نہیں ہے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں سے، نکاح کرناحرام نہیں، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، اپنی صاحبزادیوںکانکاح کرایا ہے ،جو تمام مؤمنین کی بہنیں ہیں ، ایساہی امام شافعی نے کتاب الام میں بھی لکھاہے ۔قُضاعی نے اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص کیاہے،دوسرے انبیاء علیہم السلام کی یہ خصوصیت نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی وجہ سے نکاح میں یہ حرمت ہے۔