حدیث کے معنی یہ ہیں کہ، جنابت کی حالت میں مسجدسے گذرنا میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لئے جائزنہیں ہے۔ اس تفسیرپراعتراض ہے اس لئے کہ یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو بھی شامل ہے، مگر قفال اور صاحب تلخیص نے اس بات سے انکار کیاہے، بلکہ کہاہے کہ میرے خیال میں یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ قضاعی نے اس خصوصیت کو ذکرکیاہے، مگرانہوں نے مسجدمیں داخل ہونے کے بجائے، مسجد میں ٹھہرنے کاذکرکیاہے ،اورکہاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے، جنابت کی حالت میں مسجد میں ٹھہرے رہنابھی جائزتھا۔
سولہویں : ابن القاص کہتے ہیں ،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے، بغیر کسی سبب کے لعنت کرنا جائزتھا، اس لئے کہ آپ [علیہ السلام] کا لعنت فرمانابھی رحمت کا سبب ہے مگرائمہ نے اس قول کوبعید کہاہے ،لیکن صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث ہے کہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’اللّٰہُمَّ إِنِّیْ إِتَّخَذْتُ عِندَکَ عَہْداً لَن تُخْلِفَنیہ، فإنَّمَا أَنَا بَشرٌ فَأَیُّ المُؤمِنِینَ آذیتُہٗ اَوْلَعنتُہٗ أوشَتَمْتُہ فَاجْعَلْہا لَہ زَکوٰۃً وَصلاۃً وَقُربۃً تُقرِبُہٗ بِہَا اِلَیکَ یَوم القِیَامَۃِ ‘‘۔(۱)
اے اللہ میں آپ سے وعدہ لیتاہوں ،کبھی وعدہ کے خلاف نہیں کریں گے ، اس لئے کہ میں ایک انسان ہوں ، جس کو بھی میں تکلیف دوں ، مسلمانوں میں سے، یا اس پرلعنت کروں ، یا برابھلاکہوں ، توآپ میرے اس کہنے کو اس شخص کے لئے اجروثواب بنادیجئے، اورقیامت کے دن، اس کے ذریعہ اس کو اپناقرب عطافرما دیجئے۔
------------------------------
(۱) صحیح البخاري ۲/۹۴۱، کتاب الدعوات، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم من آذیتہ فاجعلہ لہ زکوۃ ورحمۃً(۸/۶۵) رقم:۶۳۶۱۔