تینوں مرتبہ انکارفرمایا، چوتھی مرتبہ میں بیعت فرمالیا۔ اس کے بعد ارشادفرمایا کہ، کیاتم لوگوں میں کوئی سمجھدار شخص نہیں تھا، جواسے قتل کردیتا ۔جب کہ میں نے اس کو بیعت کرنے سے اپنے ہاتھ کو روک لیاتھا۔ صحابہ نے عرض کیاکہ ،آپ نے آنکھ سے اشارہ کیوں نہیں فرمادیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشادفرمایا کہ نبی کے لئے آنکھوں سے اشارے کرناجائز نہیں ۔ اس حدیث کو، امام ابوداؤداورامام نسائی نے روایت کیاہے ،حاکم نے اس کی تصحیح کی ہے اورمسلم کی شرط پربتلایاہے۔
’’خَائِنَۃُ الأعْیُنْ‘‘کے معنی ،علامہ ابن الصلاح نے ’’الإیْمَائُ بِالعَینِ‘‘ آنکھ سے اشارہ کرنابیان کیا ہے نیز کہاگیاہے کہ اس کامطلب: ’’مُسَارَقَۃُ النَّظرِ‘‘۔ تیزی کے ساتھ آنکھوں کامٹکاناہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ جوبات دل میں ہو،اس کے خلاف ظاہرکرنا:خَائِنَۃُ الأَعْیُن ہے۔
آٹھویں : اس میں ہمارے علماء میں اختلاف ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقروض شخص کی نمازجنازہ پڑھنا حرام تھا؟اس میں صحیح رائے یہ ہے کہ اگرمقروض شخص کاکوئی قرض اداکرنے کی ضمانت لے لے، تونماز پڑھناجائزتھا(ورنہ نہیں ) جب یہ حرمت منسوخ ہوگئی ،اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرشخص کی نماز پڑھانے لگے تھے،چاہے اس پر قرض ہویانہ ہو، ایسے مقروض کے قرض کی ادائیگی، اپنے پاس سے فرماتے تھے، صحیح احادیث میں اس کی صراحت ہے۔
نویں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حرام تھا کہ، بدلہ کی خاطر احسان کریں ۔ مطلب یہ ہے کہ کسی کوکچھ دے کراس خیال سے احسان کریں کہ وہ مجھ کواس سے زیادہ دے کراحسان کرے گا، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے :
’’وَلاتَمْنُنْ تَسْتَکْثِر‘‘(۱) اورایسانہ کر کہ احسان کرے اور بدلہ بہت چاہے۔
------------------------------
(۱)المدثر آیت:۶