روایت کے مطابق، انہوں نے بڑی عمر میں ہر مذہب کی کتابیں پڑھی اور افتاء کی اجازت حاصل کی ۔ جس سے معلوم ہوا کہ وہ علم ومعرفت کے جامع ، علوم دینیہ اوراس کے متعلقات کے تمام فنون کے حامل تھے۔
علامہ ابن ملقن علماء کی نظر میں : برہان حلبی کا بیان ہے کہ میں نے ایک عرصہ تک علامہ کی خدمت میں رہا، کبھی خلاف سنت کوئی عمل کرتے نہیں دیکھا۔ ۱؎
علامہ سخاوی کا کہناہے کہ علامہ عوام سے دور رہا کرتے تھے، صرف درس کے لئے نکلتے یا تفریح کے لئے باہر آتے تھے، یہ ان کے کمال ورع کی بات ہے ۔ نیکوں اور غریبوں سے محبت کرتے تھے اوران کی قدر کرتے تھے، جوان کے تواضع کی دلیل ہے۔
انباء الغمر میں حافظ ابن حجر کا بیان ہے کہ، علامہ درازقد، قبول صورت ، خوش گفتار، صاحب اخلاق، انصاف پسند اورشاگردوں کے ساتھ خوب اٹھنے بیٹھنے والے تھے۔۲؎علامہ غماری نے ان الفاظ میں ابن الملقن کی مدح کی ہے:
الشیخ الامام، علم الاعلام، فخر الأنام، أحد مشائخ الاسلام علامۃ العصر،بقیۃ المصنفین والمدرسین، سیف المناظرین مفتی المسلمین۔
ابن فہد نے تذکرۃ الحفاظ کے حاشیہ میں تحریر کیاہے، کہ علامہ تاج الدین سبکی نے ان کی مدح سرائی کی ہے۔۳؎
------------------------------
(۱)الضوء اللامع:۶/۱۰۴
(۲) انباء الغمر: ۵/۴۵
(۳) الضوء اللامع:۶/۱۰۴
(۴) الضوء اللامع:۴/۱۹۸