رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ محمد تحریرفرمایاتھااوریہ عبارت لکھی گئی تھی: ’’یہ وہ صلح نامہ ہے جس پرمحمد ا نے فیصلہ کیاہے ‘‘ابن دحیہ نے اپنی کتاب تنویر میں اس روایت کو ان کی طرف منسوب کرکے لکھا ہے ’’ ہذہ زیادۃ منکرۃ لیست في الصحیحین‘‘کہ یہ اضافہ قابل قبول نہیں ، یہ صحیحین میں مذکور نہیں ۔ عمربن شبہ نے اپنی تصنیف کتاب الکُتّاب میں لکھاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، حدیبیہ کے دن اپنے دست ِمبارک سے لکھا تھا ۔ بعض محدثین نے کہاہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھنے کاعلم، خرق عادت کے طورپراسی وقت دیاگیا تھا۔یہی قول ابوذرہروی ،ابوالفتح نیشاپوری اورقاضی ابوالولید باجی کا ہے ، انہوں نے اس موضوع پرایک کتاب تصنیف کی ہے جس میں تحریر کیاہے کہ وہ کتابت سے ناواقف آدمی کی تحریر ہے، اور ایسے آدمی کاخط ہے جس کو حروف کے درمیان کوئی واضح فرق کرنا نہیں آتاہے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم ا نے مراد کے موافق حروف تحریرفرمائے، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم ا کے معجزات میں سے ہے۔
فائدہ: اورمجالدکی حدیث میں ہے،وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عون بن عبداللہ نے ، اپنے والد کے واسطہ سے روایت بیان کی ،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی ،حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھابھی اورپڑھابھی ۔امام بیہقی کہتے ہیں کہ یہ حدیث منقطع ہے، اور اس کے روایت کرنے والے غیرمعروف اور ضعیف ہیں اورآپ[علیہ السلام] کا یہ ارشادفرمانا:
ھَل أنتِ إلااِصْبع دَمِیْتِ
وفي سبیل اللّٰہ مَالَقِیْتِ(۱)
اس کے بارے میں اخفش کہتے ہیں کہ یہ شعر نہیں ہے،نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کاارادہ فرمایا، یہ تورجزہے ۔
------------------------------
(۱) صحیح البخاري۲/۹۰۸، کتاب الأدب ،بابُ مایجوز من الشعر والرجز والحداء ومایکرہ منہ (۸/۳۰) رقم :۶۱۴۶۔