قرض ادا کئے بغیر مرجائے اس کی ادائیگی میرے ذمہ واجب ہے اور جوشخص مال چھوڑکر مرے، تواس کا مال اس کے وارثین کے لئے ہے ۔امام الحرمین کی رائے یہ ہے کہ قرض دارکے قرض کی ادائیگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب نہیں تھی، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میت کے اکرام اورتبرع کی خاطر ادائیگی فرمایاکرتے تھے اوراسی کو ماوردی نے اختیار کیاہے۔امام نووی مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المال سے ادائیگی فرمایا کرتے تھے، ایک قول یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خالص اپنے مال سے ادائیگی فرماتے تھے۔
دسواں مسئلہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ بھی واجب تھا کہ جب بھی کوئی پسندیدہ چیزدیکھیں ، توکہیں :’’لَبَّیکَ! إِنَّ العَیشَ عَیْشُ الاٰخرۃِ‘‘ [اے اللہ میں تیرے لئے حاضر ہوں ،اصل زندگی توآخرت کی ہی زندگی ہے] رافعی نے اس قول کو صیغۂ تمحیض ’’قیل‘‘ کے ساتھ ذکرکیاہے ،ابن القاص نے اپنی کتاب تلخیص میں اس قول کو معتمدقراردیا ہے ،امام بیہقی نے اپنی کتاب سنن میں اس کو ذکرکیاہے، کہ نبی کریم ا نے یہ کلمہ خوش عیشی کے زمانہ،اور حج کے موقعہ پر،عرفات میں ارشاد فرمایا، اسی طرح تنگی کے وقت ،غزوہ خندق کے موقعہ پربھی ارشادفرمایا۔
گیارہواں مسئلہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرفرض نماز کا اس طرح ادا کرنا واجب تھا کہ اس میں کسی قسم کا کوئی خلل نہ ہو۔ یہ ماوردی اورامام شافعی کاقول ہے جیساکہ علامہ عراقی نے شرح مہذب میں تحریرکیاہے ۔
بارہواں مسئلہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر،وہ نفل کام جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع فرمادیں ، اس کا پوراکرنا واجب تھا۔ یہ امام بغوی نے ذکرکیاہے۔
تیرہواں مسئلہ :ابن القاص نے اپنی تلخیص میں بہت سے امورشمار فرمائے ہیں ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرواجب تھے ،ان میں سے یہ ہے کہ: [۱]ہربات اور کام کابدلہ اچھائی کے ساتھ