میں اس بحث کی اس طرح وضاحت فرمائی ہے، کہ مجدد الف ثانی کا نظریہ بھی محفوظ رہے اور وحدۃ الوجود کا ثبوت بھی ہوجائے۔
اردو تالیفات، ترجمے، کلام اور منظومات
منبع فیض العلوم ترجمہ منظوم، دفتر اول مثنوی مولانا روم:مفتی صاحب کی اردو کی منظوم تالیفات میں بھی، فارسی تالیفات کی طرح اولیت ترجمہ مثنوی مولانا روم کو حاصل ہے۔ فارسی میں اختتام مثنوی کا تذکرہ تھا، یہاں مثنوی کے اردو منظوم کا ترجمہ کا ذکر ہے۔
دیوان نشاط:مفتی صاحب کا فارسی مجموعہ کلام بظاہر ضائع ہوچکاہے، یہ اردو فارسی کا مشترک مجموعۂ کلام ہے جو موجود ومحفوظ ہے۔
وفات: ۱۴؍جمادی الاخریٰ ۱۲۴۵ھ۔[۱۲؍دسمبر۱۸۲۹ء] کا دن گذار کر، شب میں ایک دوا استعمال کی، جس کے کھاتے ہی بے ہوشی طاری ہوگئی، ایک شب وروز اسی حال میں گذرا، افاقہ کی کوئی صورت نہیں بنی، اس حال میں اتوار کی شام ۱۵؍جمادی الاخریٰ۱۲۴۵ھ۔ [۱۳؍دسمبر ۱۸۲۹ء] کو مغرب کے وقت، جان جاں آفریں کے سپرد فرمائی انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
دوشنبہ ۱۶؍جمادی الاخری ۱۲۴۵ھ۔ ۱۴؍دسمبرکو، خاندانی قبرستان میں ،جو کاندھلہ کے موجودہ عیدگاہ سے ملحق ہے، اپنے بھائیوں مولانا امام الدین، شاہ کمال الدین اور والد ماجد کے پہلو میں دفن کئے گئے۔ رحمہ اللہ ورضی عنہ
غایۃ السؤل کی تلخیصات: غایۃ السؤل کی دو تلخیصات کا بھی تذکرہ ملتاہے، مگران کی اشاعت کا علم نہیں ۔ غایۃ السؤل کی ایک اور تلخیص وہ ہے، جو ہندوستان کے ایک بڑے عالم اورمصنف حضرت مفتی الٰہی بخش کاندھلوی نے کی تھی۔
تلخیص غایۃ السؤل حضرت مفتی صاحب: حضرت مفتی صاحب راجستھان کے مشہورشہر ، کوٹہ میں تھے، چند سال کی ملازمت کی وجہ سے قیام رہاتھا، جو وقت کوٹہ میں گزرا وہ مفتی صاحب کے خاص نشاط وکیف اور علمی دینی روحانی خوشیوں ، بلکہ سرمستی کا تھا، کوٹہ میں مفتی