سے بھی باطنی استفادہ کیا، اور ایک سفر میں ان کے ساتھ بھی رہے، اورسیداحمدشہیدکے ملفوظات کو ’’ملہمات احمدیہ‘‘ کے نام سے جمع کئے۔
منصب افتاء پر تقرری اور مفتی کا خطاب: گذرچکاہے کہ ضابطہ خاں کے اصرار پر شاہ عبدالعزیزنے، مفتی صاحب کو مفتی اعظم کی حیثیت سے اپنا قائم مقام بناکرضابطہ خاں کے یہاں بھیجاتھا، اس وقت ضابطہ خاں کی ریاست[غوث گڈھ] وقت کے نامور علماء کا مرکز تھی، اس جگہ مفتی صاحب ریاست کے باقی رہنے تک ، مفتی اعظم کے منصب پر فائز رہے اسی عہدہ اور خطاب کی وجہ وہ نام کا جز بن گیا۔
درس وتدریس: مفتی صاحب زمانہ تعلیم ہی سے شاہ صاحب کے اشارہ وحکم سے، درس دیا کرتے تھے، اس وقت شاہ صاحب بہ نفس نفیس موجود رہتے اورمفتی صاحب کے طرز تعلیم اور فن سے مناسبت ومہارت کا مشاہدہ اور نگرانی فرماتے تھے، جب شاہ صاحب نے مفتی صاحب کوہرزاویہ سے جانچ اور پرکھ لیا، تو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ اب اپنا حلقہ درس قائم کریں اور دین کی رہنمائی اور فقہ وسنت کے ذریعہ مخلوق کی خدمت کریں ۔
مفتی صاحب کا حلقہ درس متواتر ساٹھ سال تک جاری رہا، اس کی مجموعی طورپر کل طلبہ کی تعداد کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے، تاہم اگر کم ازکم پندرہ بیس طلبہ بھی ہر سال ہوں ، تو ان کی تعداد ہزاروں سے اوپر جاتی ہے، جب کہ مفتی صاحب کی متفرق یادداشتوں اور معاصرین کی تحریر سے پتہ ملتاہے کہ ہر زمانے میں مفتی صاحب کے یہاں شاگردوں کی ایک بڑی جماعت رہتی تھی۔ نمونہ کے طورپر چند تلامذہ کے نام درج ہیں :
(۱) حضرت مولانا سید محمد قلندر محدث جلال آبادی[وفات:۱۲۶۰ھ]
(۲) حضرت مولانا مرزاحسن علی[صغیر] محدث لکھنوی [وفات:۱۲۵۵ھ۔۱۸۳۹ء]
(۳) حضرت مولانا محمدحسن رام پوری [شہید بالاکوٹ، وفات:۱۲۴۶ھ]
(۴) حضرت مولانا مغیث الدین سہارنپوری[شہیدبالاکوٹ،وفات: ۱۲۴۶ھ]