قضاعی نے کیاہے، اور کہاہے ،کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی ۔حرم شریف نافرمان کو، قاتل کو،اورجزیہ سے بچ کر بھاگنے والے کو پناہ نہیں دیتا ہے، جیساکہ صحیح بخاری میں آیاہے۔
چھٹے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامال، آپ اکے بعد وراثت میں تقسیم نہیں ہو گا، اس حدیث کی وجہ سے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مَاتَرَکْنَاہُ صَدقَۃ‘‘ (۱) جوکچھ ہم چھوڑیں ،وہ صدقہ ہوتاہے‘‘
اسی قول پرابوالعباس رویانی نے قطعیت ظاہرکی ہے اوررافعی نے صغیرمیں لکھاہے کہ، یہی قول مشہورہے۔ پھرکیاوہ مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء کے لئے وقف ہوگا، اس میں بھی دورائے ہیں :
اما م شافعی کے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ وہ مال وفات کے بعد بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ہی میں رہے گا ،اورآپ[علیہ السلام] کی آل واولاد پرخرچ کیاجائے گا، جیساکہ حیات طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل وعیال پرخرچ کیاجاتاتھا۔ اس کی علت امام شافعی نے یہ بیان کی ہے کہ انبیاء علیہم السلام (اپنی قبورمبارکہ میں ) زندہ ہیں ، اسی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں اور خدمت گذاروں پرہی خرچ فرمایا کرتے تھے، اور ان امورمیں خرچ کیاکرتے تھے، جن امورمیں آپ [علیہ السلام] اپنی پاک زندگی میں خرچ فرمایاکرتے تھے، لیکن امام نووی نے روضہ میں اس قول کوضعیف کہاہے ،اور لکھا ہے کہ صحیح قول یہ ہے کہ اس مال پر آپ[علیہ السلام] کی ملکیت وفات کے بعدختم ہوگئی، آپ [علیہ السلام] کامال تمام مسلمانوں کے لئے صدقہ قرارپائے گا، اس میں ورثاء کی کوئی خصوصیت نہیں ہے، اس کے علاوہ دوسراکوئی قول کیسے صحیح ہوسکتاہے، جبکہ اس مال پرملکیت ختم ہونے پر،نص اور احادیث صحیحہ موجودہیں ۔ پھر یہ بات بھی جاننے کی ہے،کہ
------------------------------
(۱) صحیح البخاري۲/۶۰۹ کتاب المغازي باب غزوۃ خیبر، رقم الحدیث:۴۲۴۱(۵/۷۶)