’’مگر آپ[شاہ عبدالعزیز] نے مستقل بجز چار پانچ شخصوں کے اوروں کو بہت کم پڑھایا‘‘ ۱؎
مفتی صاحب کی تحریرات سے اندازہ ہوتاہے کہ مفتی صاحب نے،شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں کافیہ وغیرہ سے اسباق شروع کئے تھے، کافیہ سے درس کی اعلیٰ ترین کتابوں تک، ایک ایک کتاب کی سند، مفتی صاحب نے اپنی بیاض میں قلم بند کی ہے، آخر میں حضرت شاہ عبدالعزیز نے جو سند عطافرمائی تھی، اس میں صراحت ہے کہ انہوں [مفتی الٰہی بخش] نے شروع سے آخرتک، تمام کتابیں میرے روبرو عرض کیں ۔
مفتی صاحب اکثر درسیات میں ، شاہ رفیع الدین کے ہم سبق ورفیق تھے، اس وقت شاہ عبدالقادر نسبتاً ابتدائی کتابیں پڑھ رہے تھے، مصابیح السنہ کے اسباق میں ، شاہ عبدالقادر بھی مفتی صاحب کے ہم سبق ہوگئے تھے۔ غالباً کسی وجہ سے درس کی معمول کی ترتیب میں ، شاہ عبدالعزیز کی خدمت سنن ابوداؤد پڑھنے کا موقع نہ ملا تھا، اس لئے سنن ابوداؤد اپنے رفیق درس شاہ عبدالقادر سے پڑھی۔ شاہ عبدالعزیز تحریر فرماتے ہیں :
’’وسمع المصابیح بقرأۃ الاخ الارشد،العالم الصالح الشیخ عبدالقادر وقرأ علیہ سنن ابی داؤد‘‘
ترجمہ: مصابیح، میرے نیک بھائی،عالم وصالح، شیخ عبدالقادر کی قرأت سے سنی اور ان [ہی]سے سنن ابوداؤد پڑھی۔
مفتی صاحب شاہ عبدالعزیز کی نظر میں : شاہ صاحب نے، مفتی صاحب کی استعداد اعلیٰ درجہ کی علمی صلاحیت،اور محاسن وکمالات کا اپنی تحریر کردہ سند میں ذکر کیاہے، حتی
------------------------------
(۱)مقالات طریقت یا فضائل عزیزیہ۔ عبدالرحیم ضیاء[حیدرآباد:۱۹۹۲ھ] نیز نزہۃ الخواطر مولانا سید عبدالحی حسنی ۷/۲۶۹