اللہ بخشے تجھ کو، کیوں رخصت دے دی تونے ان کو
نقل کیاہے اوراللہ تعالی ٰکا فرمان:
مَاکانَ لِنَبي أَن یَکُونَ لَہ ٗ أَسریٰ۔(۱)
نبی کو نہیں چاہئے کہ اپنے ہاں رکھے قیدیوں کو
حضرت عمرؓ نے ان لوگوں کو قتل کرنے کامشورہ دیاتھا، اس کی دلیل یہ حدیث بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّمَا أحْکُم بِالظَّاہِرِ۔(۲) میں توظاہر پرعمل کرتاہوں ۔
یہ سب آمدی کی دلیلیں ہیں ۔
انتالیسویں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مسلمانوں کے سلام پہنچائے جاتے ہیں ۔ ماوردی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن، تمام انبیاء علیہم السلام کی رسالت کی گواہی دیں گے۔
چالیسویں : ابن سَبْع نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں یہ بھی شمارکیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نورتھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دھوپ یا چاندنی رات میں چلاکرتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسایہ
------------------------------
(۱) الأنفال، آیت:۶۷
(۲) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :روایت کے الفاظ اس طرح مذکور ہیں :’’إنَّما نحکم بالظّاہر واللّٰہ یتولّی السّرائر‘‘نیزفرماتے ہیں کہ اس روایت کو مرفوع قراردینا وہم ہے۔ ’’التلخیص الحبیر‘‘ (۴/۱۹۲)
لیکن اس روایت کی تائید ام سلمہؓ کی اس روایت سے ہوتی ہے، جو صحیح بخاری میں ہے:
’’عن أم سلمۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :إنما انابشروإنکم تختصمون، ولعل بعضکم أن یکون ألحن بحجتہ من بعض، وأقضي لہ علی نحوماأسمع‘‘صحیح البخاري۲/۱۰۶۲ رقم الحدیث:۷۱۶۹،
کتاب الأحکام، باب موعظۃ الإمام للخصوم۔(۹/۲۲)