کاسبب ہواتوصرف مسواک کا حکم دے دیاگیا، بعد میں ہراک نمازکے لئے وضوکا حکم منسوخ قراردے دیاگیا، سوائے اس صورت کے جب وضو نہ ہو۔ حاکمؒ نے اپنی مستدرک میں اس کی تخریج کی ہے اور کہاہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور مسلم کی شرط پرہے، اگرچہ مسلم نے اس کی تخریج نہیں کی ۔
ہمارے فقہاء میں سے، جس نے بھی اس روایت کولیاہے کہاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم ا کے لئے بھی وجوب استحبابی تھا،جیساکہ امت کے حق میں مستحب ہے۔ دلیل اس کی حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرفوع حدیث ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھ کومسواک کرنے کا حکم دیاگیا تھا، یہاں تک کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں مجھ پرفرض نہ کردی جائے‘‘، اس کو امام احمدنے اپنی مسندمیں اورطبرانی نے معجم کبیرمیں روایت کیاہے دو واسطوں سے ، دونوں کا مدار لیث پرہے ،اور لیث پرکلام کیاگیا ہے۔
چھٹامسئلہ : لوگوں سے معاملات میں مشورہ کرنا بھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم ا پرواجب تھا۔ ہمارے علماء کے نزدیک صحیح قول یہی ہے ،اللہ کے اس ارشاد: ’’وَشَاورْہُمْ فِي الأمْر‘‘ (۱) کی وجہ سے :ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دنیوی معاملات میں )ان (صحابہؓ) سے مشورہ کرلیا کریں ۔
جس نے مستحب کہاہے، اس نے غیرامر پرقیاس کیاہے کہ صحابہ سے مشورہ کرنے کا حکم، استحبابی تھا،ان کے قلوب کو مانوس کرنے کے لئے ۔ اس کو امام ابن قشیری نے امام شافعی سے روایت کیاہے ،یہی قول حسن بصری کاہے، کیوں کہ انہوں نے ’’وَشَاوِرْہُمْ فِي الأَمْرِ‘‘ کی تفسیر میں لکھاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم ا کوصحابہ کے مشوروں کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ اس لئے فرمایا،کہ بعدکے لوگوں کے لئے مشورہ کرناسنت قرارپائے ۔
------------------------------
(۱) المائدہ آیت:۶۷