مشقت وپریشانی پیش آتی،اللہ تعالیٰ کے ارشاد: تُرجِي مَن تَشَاء الآیۃ (۱)کی وجہ سے بھی یہی صحیح ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج کے پاس کبھی ایک ہی وقت جایاکرتے تھے، جیسا کہ امام بخاری نے حضرت انسؓ کی حدیث نقل فرمائی ہے،(۲)اس سے معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرباری واجب نہیں تھی، مگر شیخ ابوحامد،اہل عراق اورامام بغوی کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرباری واجب تھی یہی صحیح ہے۔ الا م میں یہی ظاہرنص ہے۔وجہ یہ ہے کہ آپ[علیہ السلام] اپنے مرض وفات میں بھی، ازواج مطہرات کی باری میں گئے، یہاں تک کہ ازواج مطہراتؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی، جیساکہ امام شافعی نے مختصرمیں ذکرکیاہے ۔صحیح بخاری کتاب الہبہمیں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے ، فرماتی ہیں ،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات سے اس بات کی اجازت چاہی کہ مرض کے دنوں میں میرے گھرمیں قیام فرمائیں ،تو ان سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی اجازت دید ی،صحیح روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :
أللّٰہُمَّ ہٰذَاقَسمِي فِیْمَاأَمْلِکُ ۔(۳)
اے اللہ یہ میری تقسیم ہے جس کامیں مالک ہوں ۔
سنن اربعہ میں اس کی تخریج کی گئی ہے ، ابن حبان اورحاکم نے اس کو صحیح کہاہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہؓ کو طلاق دینے کاارادہ فرمایا،اس وقت انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہؓ کو ہبہ کردی تھی،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کے پاس دودن
------------------------------
(۱) الأحزاب ،آیت:۵۱۔
(۲) صحیح البخاري۲/۷۸۵ کتاب النکاح باب من طاف علی نسائہ في غسل واحد (۷/۱۱۰)رقم:۵۲۱۵
(۳) مستدرک حاکم کتاب النکاح(۲/۱۸۷) وقال ہذاحدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ۔ [دارالمعرفۃ، بیروت]