صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت صفیہؓ، حضرت دحیہ کلبی کے پاس تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سات (غلاموں ) کے بدلے میں خریدا تھا، لیکن اس میں وہی تاویل کرنی پڑے گی، جواہل سیر نے کی ہے۔اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت صفیہ کو خریدنا حقیقتاً نہیں تھا۔
رافعی نے ذکرکیاہے کہ ذوالفقار نامی تلوار بھی، مال صفی میں سے تھی۔ امام احمد، طبرانی، امام ترمذی اور ابن ماجہ نے ،حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے نقل کیاہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوۂ بدر کے موقعہ پربطورغنیمت کے حاصل ہوئی تھی۔ ترمذی نے کہا یہ روایت حسن غریب ہے، حاکم نے اس کی تخریج کی ہے اوراس کو صحیح کہا ہے۔ (۱)
طبرانی نے معجم کبیر میں ضعیفسندکے ساتھ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کی حدیث نقل کی ہے کہ ذوالفقار نامی تلوار،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجاج بن علاط نے ہدیہ کی تھی۔
امام خطابی نے صراحت کی ہے کہ فقار فا کے زبرکے ساتھ ہے مگرعام لوگ فاء کے زیرکے ساتھ پڑھتے ہیں ۔فقار کے معنی ہیں پیٹھ کی ہڈی ، اس کامفرد فقارۃ آتاہے، فاء کے زبر کے ساتھ۔
پہلے یہ تلوار عاص بن منبہ کے پاس تھی، جب وہ قتل کردیاگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیااور حضرت علیؓ کو ہدیہ کردیا ،پھروہ ان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی ۔
اصمعی نے وہ تلوار ہارون رشید کے پاس دیکھی تھی ،ہارون رشیداس کو اپنے بدن پر سجائے ہوئے تھا ،اس میں اٹھارہ دندانے تھے۔
چوتھے :(۲) مکہ میں بغیراحرام کے داخل ہونا ،اس کوصاحب تلخیص نے نقل کیاہے اور
------------------------------
(۱) مستدرک حاکم (۲/۱۲۹) کتاب قسم الفئ[دارالمعرفۃ ،بیروت]
(۲)حضرت مفتی صاحب کی تلخیص میں اسی طرح ہے، اس میں تیسری بحث چھوٹ گئی ہے،یہ بحث اصل کتاب کے مطبوعہ نسخہ میں ص:۱۶۴ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔