ایک دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کے لئے فرمایاتھا’’إنَّ ابني ہٰذا سید‘‘۔(۱) میر ایہ بیٹا سردارہے۔
پھر اسی طرح ایک مرتبہ جب حضرت حسنؓ نے بچپن میں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر، پیشاب کردیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاتھا:’’ لاتزرمُوا ابنِي ہذا‘‘ میرے بیٹے کو کچھ مت کہو۔
رافعی نے تلخیص میں اس کو بیان کیاہے مگر قفال نے اس کا انکارکیاہے ،وہ کہتے ہیں کہ بیٹی کی اولاد کو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنے میں کوئی خصوصیت نہیں ہے۔
انتیسویں : بخاری ومسلم میں ، حضرت ابوہریرہؓ اورحضرت جابرؓوغیرہ کی صحیح حدیث موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نام پرنام رکھو، لیکن میری کنیت پرکنیت مت رکھو۔(۲)
امام شافعی کہتے ہیں کہ ابوالقاسم کنیت رکھنا جائزنہیں ، خواہ اس کا نام محمدہویا نہ ہو۔
رافعی کہتے ہیں ،کہ بہت سے علماء نے نام اورکنیت دونوں کے جمع کرنے کومکروہ کہاہے، اگرصرف نام یا صرف کنیت رکھی جائے، تو جائز ہے ،کہتے ہیں کہ بہتر ہے کہ یہی صحیح ہو،اس لئے کہ لو گ ہرزمانہ میں بلاانکار، کنیت رکھتے رہے ہیں ،مگرامام نووی نے روضہ میں کہاہے کہ یہ تاویل اوردلیل ضعیف ہے، صحیح قول امام مالک کاہے۔
امام مالک کی رائے یہ ہے کہ جس کانام محمدہو اورجس کانہ ہو،دونوں کے لئے ابوالقاسم کنیت رکھنا درست ہے،[اس کی]ممانعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ تک تھی۔ ممانعت کی
------------------------------
(۱) أخرجہ البخاری فی کتاب الفتن۲/۱۰۵۳باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأن النبي ہذا سعید(۹/۴۷) رقم:۷۱۰۹۔
(۲) أخرجہ البخاري في کتاب المناقب۱/۵۰۱ باب کنیۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم(۴/۱۴۹) ۳۵۳۸۔۳۵۳۹۔