تیسراقول :جس کو ابوحامد اوررافعی اورماوردی اورامام غزالی نے صحیح کہاہے، جس پر حاوی صغیر میں اعتماد ظاہرکیاگیاہے ، یہ ہے کہ صرف وہ عورتیں حرام تھیں ، جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب باشی فرماچکے تھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں ، اشعث بن قیس نے مستعیذہ عورت سے نکاح کیاتھا توحضرت عمرؓ نے اس کو رجم کرنے کاارادہ کیا، بعدمیں معلوم ہوا کہ وہ مدخول بہانہیں تھیں ، اس لئے حضرت عمرؓ رک گئے یہ بات امام شافعیؒ امام غزالی اورقاضی نے ذکر کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اشعث کو رجم کے بجائے کوڑے لگائے گئے تھے۔
اورذکرکیاگیاہے کہ جس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اسی سال (ربیع الاول ۱۰ھ) میں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعث بن قیس کندی کی بہن، قتیلہ سے نکاح فرمایاتھا، لیکن شب باشی کی نوبت نہ آئی تھی ،پھر مرض وفات میں وصیت فرمائی، کہ قتیلہ کو اختیاردیاجائے کہ اگر چاہیں تو پردہ اختیار کرلیں ،وہ تمام مؤمنین کے لئے حرام ہوجائیں گی، ان پربھی وہی احکام جاری ہوں گے، جوتمام امہات مؤمنینؓ پرجاری ہوں گے، ورنہ جس سے چاہیں نکاح کرلیں ، انہوں نے نکاح کو اختیارکیا۔اسی لئے حضر موت میں عکرمہؓ بن ابی جہل سے نکاح کرلیا، جب حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خبرپہنچی، تو انہوں نے کہاکہ میں یہ چاہتاہوں کہ اسے آگ میں جلادوں ، تب حضرت عمرؓنے کہاکہ وہ امہات المؤمنین میں سے نہیں ہیں ، اورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شب باشی کی ہے اورنہ ہی اس پرپردہ کا حکم فرمایا توحضرت ابوبکرؓ رک گئے۔ ماوردی کہتے ہیں کہ اس بات پرگویا اجماع ہوگیا۔
اگر ہم اورآگے بڑھیں تووہ باندی ،جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات یاکسی اور وجہ سے ہمبستری کے بعد چھوڑ دیاہو، اس میں بھی دورائے ہیں :پہلی یہ ہے کہ حلال نہیں ہوں گی، دوسری رائے یہ ہے کہ وہ حلال تھیں ، اس لئے کہ حضرت ماریہؓ کا شمار، امہات المؤمنینؓ میں نہیں