(۵) حضرت مولانا عبدالرزاق جھنجھانوی کاندھلوی[وفات: ۱۲۹۳ھ۔ ۱۸۷۵ء]
(۶) مولانا وجیہ الدین صدیقی سہارنپوری [وفات: تقریباً۱۲۶۰ھ]
(۷) حضرت مولانا مملوک العلی نانوتوی رحمہم اللہ وغیرہ
حضرت مفتی صاحب کو شعر وادب کاخاص ذوق باری تعالیٰ کی طر ف سے عطا ہوا تھا، وہ شعروسخن کے ذریعہ اصلاحی اور دینی خدمات بھی انجام دیتے تھے۔ مفتی صاحب نے عقیدہ کی اصلاح، ضروری دینی احکامات ومسائل اور روزہ مرہ کی زندگی کے تعلق سے، مناسب اصلاحی ہدایات اور معاشرہ کی درستگی کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کے لئے، چھوٹے چھوٹے رسائل مرتب ومنظوم فرمائے تھے، جو عامۃ المسلمین کے لئے مفید تھے، وہ گھر گھر پڑھے جاتے تھے اور ان کے سننے والے اپنی اصلاح کی فکر کرتے تھے۔
تصنیف وتالیف:مفتی صاحب کی تالیفات ومصنفات کاسلسلہ ان کے عہددرس وافادہ کی طرح، کم ازکم ساٹھ سال پر محیط ہے، مگر جس طرح مفتی صاحب کے تلامذہ کی کوئی جامع فہرست موجود نہیں ، اسی طرح تالیفا ت کا بھی محقق تذکرہ دستیاب نہیں ۔ مفتی صاحب کی تحریر وتالیف کا اس وقت آغاز ہوا جب مفتی صاحب ،شاہ صاحب کی خدمت میں تعلیم میں مشغول تھے، جس کی ابتدا غالباً شاہ صاحب کے درس افادات کو قلم بند کرنے سے ہوئی تھی، یہ ذوق آہستہ آہستہ بڑھتاہوا ، ایسا شاخ درشاخ تناور درخت بن گیا جس کی ہر شاخ علم سے معمور نظر آتی ہے۔ مفتی صاحب نے عربی فارسی اردو تینوں زبانوں میں متنوع موضوعات پر تصنیفات کا ایک بڑاوسیع ذخیرہ یادگار چھوڑا تھا،لیکن انقلابات زمانہ اور ناقدری سے، اس کا بھی وہی حال ہوا جو غفلت اور ایسے ذخیروں کی قدروقیمت سے ناواقف ماحول میں ہوا کرتاہے۔
تاہم ان کی تالیفات کا وہ سرمایہ جس تک رسائی ہوسکی اور حوادث زمانہ کے باوجود باقی رہا، ان کی کل تعداد ایک سودس تک پہنچتی ہے، جس میں عربی اردو فارسی مصنفات شامل ہیں ۔
جن میں سب سے اہم مثنوی مولانا روم کاتتمہ وتکملہ ہے۔ مولانا روم نے مثنوی کے چھٹے