فرع: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم ا کے لئے، غصہ کی حالت میں بھی فتوی دینا ،یاکسی کو فیصلہ صادر کرنا مکروہ نہیں تھا، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غصہ میں ، غلط فیصلہ یا غلط فتوی صادر کرنے کاخوف نہیں تھا،اس کا خوف تو غیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے،یہ بات امام نووی نے شرح مسلم ’’کتاب اللقطۃ ‘‘میں لکھی ہے۔
نویں : آپ [علیہ السلام] ہراس شخص کی گواہی قبول فرمالیتے تھے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی دیدے ،جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خزیمہ کی گواہی ان کے حق میں قبول فرمائی، جن کاقصہ ابوداؤد اورحاکم میں مذکور ہے اوراس کو صحیح کہاہے۔مگر ابن حز م نے اس سے اختلاف کیا، لیکن صاحب مطلب نے دعویٰ کیاہے کہ یہی قول صحیح اور مشہور ہے۔
دسویں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کی حفاظت کریں ، اگرچہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں کیا ، اگرکبھی کرتے تومسلمانوں کی مصلحت کی خاطر ہوتا، مگریہ خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی امام[خلیفۃ المسلمین] یا دوسروں کو حاصل نہیں کہ وہ اپنی جانوں کی حفاظت کریں ، جیساکہ فقہ کے مباحث میں ، اپنی اپنی جگہوں پر درج ہے۔
اس خصوصیت کوبھی، قضاعی نے ان خصوصیات میں ذکرکیاہے ،جوآپ [علیہ السلام] سے قبل دوسرے انبیاء علیہم السلام کونہیں دی گئیں ۔
فـــــرع: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے جو چیزیں اورحقوق محفوظ کردئیے ہیں وہ کسی حال میں بھی ختم نہیں ہوسکتے،کیونکہ اس کی حیثیت نص شرعی کی ہے،اوراگر اس کی ضرورت باقی نہ رہے تو دونوں صورتیں جائزہیں ، صحیح ترین قول کے مطابق یہ حقوق ختم نہیں کئے جاسکتے کیونکہ اس صورت میں ایک قطی الثبوت حکم میں اپنے اجتہاد سے تبدیلی لازم آئے گی جو درست نہیں ۔
گیارہویں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جائز تھا،کہ ضرورت کے وقت کھانے پینے کا سامان اس کے مالک سے لے لیں ، چاہے وہ خود بھی ضرورت مند ہو، اور اس کے لئے یہ