’’بَلْ أکُونُ عَبْداً نَبِیّاً‘‘ (۱) بلکہ میں بھی اللہ کابندہ اورنبی ہوں ۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ، اس جملہ کے ارشادفرمانے کے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک، کبھی بھی ٹیک لگا کرکھانا نہیں کھایا۔ اس روایت کی اوربھی سندیں اور طرق ہیں ،جن کومیں نے رافعی کی احادیث کی تخریج میں واضح کیاہے ۔
ٹیک لگاکر کھانا ،کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حرام تھا یامکروہ! جیسے کہ امت کے حق میں مکروہ ہے، اس میں بھی دوقول ہیں :پہلاقول رافعی کا ہے، کہتے ہیں کہ مکروہ تھا، جیساکہ امت کے حق میں مکروہ ہے ۔ دوسری رائے تلخیص کے مصنف کی ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ٹیک لگاکر کھانا حرام تھا، اس لئے کہ اس میں تکبراوربڑائی پائی جاتی ہے۔
پہلی بات کی دلیل یہ ہے کہ ایسی کوئی چیزنہیں ، جواس کی حرمت کو ثابت کرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکسی چیزسے رکنا اور احتیاط فرمانا، ضروری نہیں کہ حرمت ہی کی وجہ سے ہو۔ خطّابی فرماتے ہیں ،کہمتکئی(ٹیک لگانے والے) سے مراد یہاں جان بوجھ کر، مسنداور گدا لگاکربیٹھنے والاہے۔امام بیہقی نے بھی اس قول کو اپنی سنن میں تحریر کیا ہے، مگر ابن جوزی نے اس کا انکارکیاہے، کہاہے کہ متکئی سے مراد وہ ہے، جو اپنے پہلو پرٹیک لگاکر بیٹھے، صاحب شفاء نے بھی خطابی کے قول کی تائید کی ہے، اورلکھاہے کہ محققین کے نزدیک، ایک جانب جھک جانے والامتکئینہیں ہوتا۔ ایسے ہی ابن دحیہ نے اپنی کتاب اَلمُستَوفٰی فِی اسْمَاء المُصْطَفٰیمیں تحریرکیاہے کہ اتکاء (ٹیک لگانا) سے مرادلغت میں ، کھانے پرڈٹ جاناہے۔
لکھنا اورشعرکہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شایان شان نہیں تھا۔! اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
------------------------------
(۱) السنن الکبریٰ (۷/۴۹) في کتاب النکاح باب ما رُوي عنہ في قولہ أما أنا فلا آکل متکئا[عکس نسخۂ دائرۃ المعارف دارالفکر،دمشق :بلاسنہ]