وَلاتَخُطُّہٗ بِیَمِینکَ ۔(۱) نہ لکھتے[ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ] اپنے داہنے سے۔
نیزارشاد ہے:
’’وَمَاعَلَّمنَاہ الشِّعر وَمَایَنْبَغِی لَہٗ‘‘ (۲)
نہ ہم نے ان کوشعرگوئی سکھائی اورنہ وہ ان کے لئے مناسب ہے ۔
یہ دونوں چیزیں ،(لکھنااورشعرکہنا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حرام تھیں ۔ رافعی کہتے ہیں ، کہ دونوں کی حرمت کامسئلہ اس وقت ہے ،جب کہ آپ[ علیہ السلام] ان کو پسند فرماویں ، اوران پرتوجہ فرمائیں ،پھر اس میں اختلاف ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے اور شعرکہنے کو پسند فرمائیں اوراس میں توجہ کے ساتھ وقت صرف فرمائیں ، مگراس سے پرہیز فرماتے تھے، لیکن صحیح قول یہ ہے کہ آپ [علیہ السلام] اچھی طرح لکھنا اور شعر گوئی جانتے ہی نہیں تھے۔امام نووی نے روضہ میں تحریر کیا ہے: لایَمْتَنعُ تَحریمُہُما وإن لَمْ یُحْسِنْہُمَا۔یعنی اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ن دونوں فن سے ناواقف ہوں لیکن پھر بھی یہ چیزیں آپ پر حرام ہیں ،بلکہ حرمت سے مراد، ان کے علوم کو سیکھناہے۔ معترض نے اعتراض کیاہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھی طرح لکھناجانتے تھے ،جیساکہ بخاری نے روایت کیاہے کہ نبی کریم انے لکھاتھا :
’’ہذامَاصَالَحَ عَلیہِ مُحَمَّد بنُ عَبداللّٰہ‘‘ (۳)
یہ وہ صلح نامہ ہے جس پرصلح کی، محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ [علیہ السلام] نے یہ عبارت لکھنے کاحکمدیاتھا[ خود نہیں لکھا تھا] لیکن ابومسعوددمشقی کی کتاب اطراف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنا شروع فرمایا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھی طرح لکھنانہیں جانتے تھے اوروہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، صرف
------------------------------
(۱) العنکبوت آیت:۴۸ (۲) یٰس آیت:۶۹
(۳) صحیح البخاری۲/۶۱۰ کتاب المغازي، باب عمرۃ القضاء، (۵/۱۱۶) رقم :۴۲۵۱۔