شیخ ابوعمروبن الصلاح اورنووی نے روضہ میں اس کو صحیح کہاہے، اس پراورحدیثیں بھی دلالت کرتی ہیں ،انھیں میں سے صحیح مسلم میں ،حضرت سعدبن ہشام کی حدیث، حضرت عائشہ ؓ کے واسطہ سے نقل کی گئی ہے، جس میں سعدبن ہشام کہتے ہیں : میں نے حضرت عائشہؓ سے سوال کیا ،مجھ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے بارے میں بتائیے، تو حضرت عائشہ ؓنے فرمایا: کیاآپ نے :یَاأَیُّہَا المُزَّمّل نہیں پڑھی۔ میں نے عرض کیا ،کیوں نہیں ؟انہوں نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدائی آیات میں تہجد کو فرض کیاتھا،حضور[علیہ السلام] اور صحابہؓ نے اس پرعمل کرتے ہوئے ایک سال قیام فرمایا [تہجداداکی] اسی سورت کی آخری آیات سے، تہجد کے وجوب کو منسوخ کردیاگیا، اللہ نے بارہ ماہ کے بعدتخفیف کی آیات نازل فرمائیں ، اورتہجد کی نمازفرض کے بعد نفل قرارپائی۔ سعد بن ہشام فرماتے ہیں ، کہ میں نے حضرت عائشہؓ کی یہ بات، حضرت ابن عباسؓ کے سامنے بیان کی، توانہوں نے فرمایا کہ: حضرت عائشہؓ نے سچ کہا۔حضرت عائشہؓ نے ان آخری آیات سے یہ آیتیں مراد لی ہیں :
’’ عَلِم أنْ لَنْ تُحصُوہ فَتَابَ عَلَیکُمْ‘‘ (۱)
ترجمہ:اس نے جاناکہ تم اس کو پورانہ کرسکوگے، سوتم پر معافی بھیج دی۔
ایک قول یہ بھی نقل کیاگیاہے کہ اصل قیام منسوخ ہوا، اصل وجوب منسوخ نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشادکی وجہ سے :’’ فَاقْرؤُوا مَاتَیَسَّرَمِنہٗ‘‘(۲)ترجمہ: اب پڑھوجتناتم کو آسان ہو قرآن سے۔
قرأت سے مرادنمازہے، اس لئے نماز کے بعض اجزاء کے ساتھ اس کانام رکھ دیاگیا ، اور اللہ تعالیٰ کے فرمان:’’ نَافِلَۃَ لَّک‘‘(۳)یہ زیادتی تیرے لئے ہے۔
------------------------------
(۱-۲)سورۂ مزمل ،آیت:۲۰۔
(۳)سورۂ بنی اسرائیل آیت:۷۹۔