اس سے نفل مراد نہیں لیاجاسکتا، اس سے فرض پرزیادتی مرادہے۔صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ا نے مزدلفہ کی رات میں ، مغرب عشاء، ایک اذان اور دواقامت سے پڑھیں ، اوران دونوں فرضوں کے درمیان کوئی نفل نہیں پڑھی،پھرآرام فرمایا،یہاں تک کہ فجرطلوع ہوگئی، اس کے بعد اس وقت نمازِفجرادافرمائی جب روشنی نمودار ہوگئی۔
اس لئے یہ حدیث وتراورتہجدکے واجب نہ ہونیپردلیل ہے،لیکن اس کایہ جواب دیاگیاہے کہ ہوسکتاہے اس وقت وجوب منسوخ ہو۔
رافعی کہتے ہیں کہ: حضرت عائشہؓ سے مروی روایت کامقتضا وہی ہے جوگذرچکا، یعنی وترکی نمازکاحکم، تہجد کی نماز کے علاوہ الگ سے ہے۔شبہ اس بات کابھی ہے کہ وترہی تہجد ہو،جیسا کہ قاضی رویانی کی روایت سے معلوم ہوتاہے۔ دونوں کا اختلاف واضح ہے ،اسی لئے انہوں نے اپنی کتاب تذنیب میں دونوں شرحیں کی ہیں ، صاحب حاوی صغیر نے بھی انہیں کا اتباع کیاہے ،لیکن میں کہتاہوں کہ حضرت عائشہ کی حدیث صحیحین میں ہے:
’’ مَاکَانَ رَسولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلیہِ وَسَلَّم یَزِیدُ فِي رَمضَانَ وَلاغَیرہ عَلٰی إِحدیٰ عَشْــرَۃَ رکــعۃً، یُّصَلّي أربَعاً، فَلا تَسئَلْ عَن حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ، ثُمّ یُصَلِّي أَرْبَعاً فَلا تَسْئَلْ عَن حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ،ثُمَّ یُصَلِّي ثَلاثاً‘‘۔(۱)
ترجمہ: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیررمضان میں ، گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، آپ چاررکعات ادا فرماتے، بس مت پوچھو ان کے حسن کواور ان کی طوالت کو، پھرچاررکعت ادا
------------------------------
(۱)صحیح البخاری باب قیام النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم باللیل في رمضان وغیرہ ۱/۱۵۴۔ کتاب التہجد (۱/۳۰۸) رقم :۱۱۴۷۔