کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اگلے پچھلے گناہوں کی مغفرت کی جاچکی ہے ، اس کو امام الحرمین اور بغوی نے نقل کیاہے۔
حسن بصری فرماتے ہیں کہ: تہجدکانافلہ ہونا(فرائض کے ثواب پر زیاتی)توصرف نبی [ا] کے لئے ہے ،دوسروں کے لئے نہیں ؛ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض کامل اورمکمل ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے فرائض ،نقصان اورکمی سے خالی نہیں ، ا س لئے اس کے نوافل، فرائض کی کمی کو پوراکردیتے ہیں ۔
امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں مجاہدسے ،اورابن المنذر نے اپنی تفسیر میں ،ضحاک اوردوسرے حضرات سے یہی تفسیرنقل فرمائی ہے ۔نیزرافعی وغیرہ نے حضرت عائشہؓ کی درج ذیل حدیث سے استدلال کیاہے ،کہ تہجد پڑھنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے واجب تھا:
’’ ثَلاَثٌ ہُنّ عَليَّ فَرَائِضُ وَہُنَّ لَکُم سُنَّۃٌ: اَلْوِتْرُ،وَالسِّواکُ، وَقِیامُ اللَّیْلِ‘‘(۱)
ترجمہ: تین چیزیں مجھ پر فرض ہیں اوریہ تمہارے لئے سنت ہیں : وتر، مسواک، اورقیام اللیل۔
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ،اس کو امام بیہقی نے اپنی سنن خلافیات میں نقل کی ہے۔ اس کی سند میں موسیٰ بن عبدالرحمان الصنعانی ہے، ابن عدی کہتے ہیں کہ موسی بن عبدالرحمن منکرالحدیث ہے ،یہ حدیث علی بن جریج نے عطاسے وضع کی ہے، انہوں نے حضرت ابن عباسؓ کی تفسیری روایات کو،ایک کتاب میں جمع کیاہے جو(دراصل)مقاتل اورکلبی کی روایات ہیں ۔امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ موسیٰ بہت زیادہ ضعیف ہیں ۔
شیخ ابوحامدنے نقل کیاہے کہ امام شافعی کہتے ہیں ، کہ: وترکاوجوب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں منسوخ ہوگیاتھا، جیسا کہ امت کے حق میں وجوب منسوخ ہے۔
------------------------------
(۱) السنن الکبریٰ للبیہقی ۷/۳۹