جیسے وہی صحیح ہیں ۔
ابن جوزی نے اپنی علل میں اس کی تضعیف کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث، صحیح نہیں ہے، اعلام میں کہاہے کہ: یہ حدیث ثابت نہیں ہے، پس تمام طرق سے حدیث کا ضعف معلوم ہوگیا، اس لئے تخصیص ثابت نہیں ہوگی اوریہ تخصیص کس طرح ثابت ہو جب کہدارقطنی نے حضرت انسؓ کی مرفوع حدیث ، قتادہ کے واسطہ سے نقل کی ہے:
’’أُمِرْتُ بِالوِتْرِ والضُّحٰی وَلَمْ یَعْزِمْ عَليَّ‘‘(۱)
یہ حدیث ابن شاہین نے اپنی کتاب ناسخ ومنسوخ میں روایت کی ہے، لیکن یہ حدیث بھی ضعیف ہے، اس میں عبداللہ بن محررہیں ، جو بالاجماع ضعیف ہیں ۔
ابن شاہین نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی پہلی والی حدیث کو، وضّاح بن یحییٰ کے واسطہ سے، اپنی کتاب ناسخ منسوخ میں ذکر کیاہے، اورحضرت انسؓ کی حدیث : أُمِرتُ بِالْوِتْرِ والضُّحیٰ ولَمْ یَـعْــزِمْ عَليَّ کو نقل کرتے ہیں ،پھرلکھتے ہیں کہ: پہلی حدیث أَقْرَبُ إِلٰی الصَّوابْ ہے، دوسری حدیث کے مقابلہ میں ؛اس لئے کہ اس میں عبداللہ بن محرر ہے، اوروہ محدثین کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے، کہتے ہیں کہ: میں نہیں جانتا ،دونوں میں سے کون ناسخ ہے اورکون منسوخ؟ اور رویانی نے ابن عباسؓ (۲)سے نقل کیاہے کہ:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرقربانی اور وتر واجب نہیں ‘‘شہادت اس کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ،سواری پروتر کی نمازاداکی ہے،(۳)لیکن
------------------------------
(۱)سنن الدارقطني ۱/۱۷۱ ،کتاب الوتر[فاروقی،دہلی:۱۳۱۰ھـ]
(۲)حضرت مفتی صاحب کی تحریر وتالیف میں یہ عبارت اس طرح ہے: ’’وقد حکی الرویاني عن ابن عباسؓ‘‘جس کا ترجمہ متن میں درج ہے، لیکن اصل کتاب کے محقق نسخہ کی عبارت یہ ہے:أحسن بعض الأصحاب -فی ما حکی عن أبی العباس الرویانی- فقال اس سے معلوم ہوا کہ حکی الرویانی عن ابن عباس‘‘شاید سہوقلم ہے یا کاتب نسخۂ اصل کی غلطی ہے۔[ملاحظہ ہو: غایۃ السول ابن الملقن تحقیق:عبداللہ بحر الدین عبداللہ مطبوعہ بیروت:۲۰۰۱م]
(۳) التلخیص الحبیر، حافظ ابن حجرؒ (۳؍۱۱۹)۔