امام نووی ؒنے ’’شرح مہذب‘‘ میں تحریرکیاہے کہ: وتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجوب کے ساتھ سواری پراداکرنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے، یاپھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پروترصرف حَضَرمیں واجب تھا، سفر میں نہیں ، اور محصول کی شرح، اورشرح تنقیح میں اس کی صراحت کی ہے۔ اورحلیمی نے شعب الایمان میں (۱) اورشیخ عزالدین نے اپنے قواعد میں ، اس کی صراحت کی ہے۔
امام ترمذی نے، حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت بیان فرمائی ہے:
’’کَانَ صَلّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسلَّمَ یُصلّي الضُّحیٰ حَتّٰی نَقُولَ لاَیَدعُہا، وَیَدعُہا حَتّی نَقُولَ لا یُصلّي‘‘(۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نمازپڑھتے تھے، یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے ،کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی چھوڑیں گے نہیں ، پھرترک فرمادیتے، یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے، کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں پڑھیں گے ۔
امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے ،اوریہ حدیث ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے [نماز چاشت کے] واجب نہ ہونے پردلالت کرتی ہے، بلکہ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ:
’’مَارَأیتُ رَسُولَ اللّٰہ صَلّی اللّٰہ عَلیہِ وَسَلّم سَبَّحَ سُبْحَۃَ الضُّحیٰ وَإنّي لَأُسَبِّحُہا‘‘ (۳)
------------------------------
(۱) المنہاج فی شعب الایمان (۲/۳۰۲) في مباحث قیام اللیل۔[دارالفکر ،دمشق:۱۳۹۹ھ]
(۲) صحیح الترمذي في الجامع ۱/۱۰۸ أبواب الوتر ، باب ماجاء في صلاۃ الضحیٰ ص:۵۸۶/ج:۲ وقال حسن غریب ۔تحقیق شیخ احمد محمدشاکر۔[دارالکتب العلمیۃ: بیروت: بلاسنہ]
(۳) صحیح البخاری ۱/۱۵۷ کتاب التہجد باب من لم یصل الضحی ورآہ وسعاً(۱/۳۱۵) رقم : ۱۱۷۷[مکتبۃ الریاض الحدیثۃ، الریاض:۱۴۰۴ھ] ومسلم کتاب الصلوٰۃ، باب إستحباب صلاۃ الضُّحی ۱/۲۴۹(۱/۵۲۳) رقم:۷۱۸۔تحقیق ابوقتیبہ محمدالفاریابی۔ [دارطیبہ،الریاض:۱۴۲۷ھـ]