مَاتَثَائَ بَ نَبِيٌ قَطّ وإنّہاعلامۃُ النّبوۃِ۔(۱)
کسی نبی کو کبھی جمائی نہیں آئی،جمائی نہ لینانبوت کی علامات[میں سے]ہے۔
کہاگیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی انگڑائی بھی نہیں لیتے تھے، اس لئے کہ وہ شیطان کا عمل ہے،اس کا تذکرہ ابن سبع نے شفا میں کیاہے (۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں یہ بھی شمار کیاگیاہے کہ ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کااقرار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی کرلیاتھا، جیسے ورقہ بن نوفل! بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے بہت پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ، حبیب النجارنامی ایک شخص نے،جوعیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں موجودتھے اورتبع الاکبر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیاتھا۔اور ان کے علاوہ بھی بعض اصحاب نے آپ کا اقرار کرلیا تھا، جیساکہ بیان کیا گیا ہے۔ اورمیں نے: أَعْذَبُ المَورد وأَطیب الموالد‘‘ میں دیکھاہے، آپ کے خصائص میں سے یہ بھی ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک جسم پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی، طبرانی کبیرمیں : وَاذْکررَبّکَ إذانَسِیْتکی تفسیرمیں حضرت مجاہدنے حضرت ابن عباسؓ سے یہ روایت نقل کی ہے، کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بات کرتے ہوئے ،انشاء اللہ کہنابھول جائیں اور یادآنے پرانشاء اللہ کہہ لیں ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے، امت کے لئے نہیں ہے، امت کے لئے قسم کے ساتھ انشاء اللہ کہناہے۔
ابن شاہین نے ذکرکیاہے کہ ایمان کے شعبوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی ہر بات
------------------------------
(۱) قال الحافظ في الفتح۱۰/۶۱۳ وأخرج الخطابی من طریق مسلمۃ بن عبدالملک بن مروان قال: مَاتَثَاوبَ نبي قط، وقال: ومسلمۃ أدرک بعض الصَّحابۃ وہوصدوق ویؤید ذلک ماثبت أن التثاؤب من الشَّیطان[دارالفیحاء دمشق۔]
(۲) أوردہ الحافظ في الفتح۱۰/۶۱۳ بلفظ أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان لایتمطی لأنہ من الشَّیطان۔ [دارالفیحاء دمشق]