یہاں سے اﷲ تعالیٰ ستر ہزار افراد کو قیامت کے دن چودھویں کے چاند کی صورت میں اٹھائیں گے ، وہ لوگ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔
آج عشاء کی نماز کے بعد مرحوم حضرت قاری حافظ محمد رمضان صاحب کے گھر گئے ، قاری صاحب مرحوم بہت خلیق ومتواضع ، بہترین حافظ وقاری اور زندگی بھر خدمت قرآن میں مشغول بزرگ تھے ۔ ۲۰۰۳ء میں جب میں اہلیہ کے ساتھ حج میں آیا تھا ، تو حافظ مسعود صاحب نے ان سے ملاقات کرائی ،اسی پہلی ملاقات میں طبیعت نے ان کی نیکی اور تواضع کا اثر قبول کیا ، انھوں نے میرے قافلہ کی دعوت کی جو چار افراد پر مشتمل تھا ،اس میں دوعورتیں تھیں ، ان کے گھر کی عورتوں نے بہت خدمت کی ۔
۲۰۰۶ء کا حج جو نور اﷲ بھائی کے ساتھ ہواتھا ، اس میں انھوں نے اپنے گھر پر مجھ سے تقریر کی فرمائش کی ، مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ،منیٰ ومزدلفہ اور عرفات میں مجھے تقریر کرنے کی ہمت نہیں ہوتی، یہاں تو اپنے گناہوں اور خطاؤں کومٹانا چاہئے ، اور ہم جیسوں کی تقریر جو اﷲ جانے نیت اور دل کی کتنی خرابیوں سے لبریز ہوتی ہے ، کہیں فردِجرم میں مزید اضافہ نہ کردے ، اس لئے میں چھپا چھپا شرمندہ شرمندہ رہتا ہوں ، لیکن اس روز انھوں نے ہلکی پھلکی تقریر کرنے پر مجبور کردیا تھا ۔ پچھلے سفر میں مدینہ شریف پہونچا تو حافظ صاحب نے بتایا کہ قاری صاحب پاکستان روانہ ہوگئے ہیں ، غالباً ان کی والدہ کا انتقال ہواتھا ۔
اس سال مکہ مکرمہ ہی سے خیال تھا کہ مدینہ شریف پہونچ کر قاری صاحب سے ملاقات ہوگی ، مگر پہونچتے ہی حافظ صاحب نے بتایا کہ حج کرنے قاری صاحب گئے تھے ، واپسی میں چند دنوں کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ إناﷲ وإناإلیہ راجعون
ارادہ ہوا کہ تسلی اور تعلق کو برقرار رکھنے کے لئے ان کے گھر جانا چاہئے ، چنانچہ حافظ صاحب کے ہمراہ ان کے گھر ہم چند رفقاء گئے ، صاحبزادگان ماشاء اﷲ سب حافظ وقاری ہیں ، ملاقات ہوئی ، بہت نیک وصالح ، اور بہت خلیق ومتواضع! اپنے والد کے نقش قدم پر۔