بھی اپنا سامان لے کر نیچے آئے ، ڈھائی بجے کے بعد بس چلی ، معلم کی آفس پر جاکر ٹھہری ، ساڑھے تین بجے کے قریب وقت تھا ، کہ عصر کی اذان کی آواز آئی ، میں باوضو تھا ، گھڑی نہیں دیکھی ، اور میں نے قبلہ معلوم کرکے وہیں عصر کی نماز پڑھ لی ، نماز سے فارغ ہوا، تو رفقاء میں سے ایک نوجوان بنارسی حاجی نے بتایا کہ ابھی عصر کا وقت ہوا ہی نہیں ہے ، گھڑی دیکھی تو وقت ہونے میں ابھی دومنٹ باقی تھے ، بس والے سے اجازت لی ، اس نے بتایا کہ قریب ہی مسجد ہے ، اتنے میں اذان کی آواز آئی ، معلوم ہواکہ پہلی آواز کسی موبائل کی تھی ، دھوکہ ہوا۔ ہم لوگ مسجد گئے ، وہاں حمام میں استنجا کی ضرورت پوری کی ،وضو کیا ، ابھی مسجد کی نماز میں کچھ دیر تھی ، میں نے اور عادل نے باہر ہی جماعت کرلی ، بس والا جلدی کررہا تھا ۔
بس وہاں سے چلی ، ایک جگہ رک کر ڈرائیور نے مغرب کی نماز پڑھوائی ، پھر عشاء کی نماز اور چائے ،کھانے کے لئے دوسری جگہ گاڑی روکی ، ٹھنڈک بہت تھی ، برفانی ہوائیں چل رہی تھیں ، پھر گاڑی چلی ، بس یہاں کے لحاظ سے بہت سست رفتار تھی ، یہاں کی بسوں کے لحاظ سے اسے ساڑھے نو بجے ، بیش از بیش دس بجے تک مدینہ طیبہ پہونچ جانا چاہئے ، مگر بارہ بجے رات میں پہونچی ، کمرے میں جب پہونچے تو ایک بج گیا تھا ۔
اﷲ کے کرم سے بلڈنگ مسجد نبوی شریف کے قریب ہی ملی ، باب ملک فہد کی طرف پہلی بلڈنگ طیبہ نامی ہے ، اس کے بعد ایک سڑک ہے ، سڑک سے متصل ہماری بلڈنگ ہے جس کانام ’’دارالسلام‘‘ ہے ، اﷲ تعالیٰ آخرت کا دارالسلام نصیب فرمائیں ، دار السلام کی نویں منزل پر روم نمبر ۷ (A) میں جگہ ملی ، حجاج کرام زیادہ تراپنی اپنی اہلیہ کے ساتھ تھے ، ہم دونوں باپ بیٹے اور گھوسی کے ایک حاجی محمود عالم صاحب تنہاتنہا تھے ، ہم نے تین آدمیوں کا گروپ بنایا ۔ بحمد اﷲ ایک ایسا کمرہ ملا ، جو تین ہی بیڈ پر مشتمل ہے ، اچھا کمرہ ہے ، میرے لئے لکھنے کی بھی سہولت ہے ، یااﷲ! آپ کا شکر کس زبان سے ادا کروں کہ آپ نے اپنے گنہگار بندے پر کتنا کرم فرمایا ۔
خوب تھکے اور جگے تھے ، بستر پر پڑتے ہی بے خبر ہوگئے ۔