تھا کہ جس بندے نے بارگاہِ خاص میں پہونچ کر بھی بندگی کا کوئی حق ادا نہ کیا ہو ، کیا ا س کے لئے آئندہ حاضریٔ دربار کی اجازت مل سکتی ہے ، یہ سوچ سوچ کر میں کانپ رہا تھا ، اور چاہتاتھا کہ پھر حاضری کی دعا مانگوں ، مگر خوف محسوس ہورہا تھا کہ کس منہ سے دعا کروں ، اب تک کیا کیا ہے ؟ کہ آئندہ کوئی امید کی جائے ؟ لیکن اگر دعا نہ کروں ، تو گویا مایوسی کے کفر میں پڑتا ہوں ، یہ اس سے زیادہ خطرے کی بات ہے ، ان دونوں کیفیتوں کے درمیان دل ہچکولے کھارہا تھا ، اور زبان گنگ تھی ، میں پریشان تھا ، بالآخر رجاء کی کیفیت کو غالب کرکے دعا کرہی لی ،کہ الٰہی! گناہ گار سہی ! مگر حاضری سے محروم نہ فرمائیے گا ، مجھے جب اﷲ نے اولادوں کی نعمت عطا فرمائی ، تو دل میں ، میں نے طے کیا تھا کہ سب اولادوں کے درمیان عدل کا برتاؤ رکھوں گا ، عطاء وبخشش میں کسی جانب داری سے کام نہ لوں گا ، چنانچہ حتی الامکان اب تک اس پر عمل کیا ہے ،اور میری اولاد شاید اس کی گواہی دے۔
جب وقت آیا کہ اولاد کو حج میں ساتھ لے جاؤں ، تو بعض وجوہ سے میں نے ۲۰۰۳ء کے حج میں پہلے کے بجائے دوسرے بیٹے کا انتخاب کیا ، مگر اﷲ نے اس انتخاب کو منظورنہیں فرمایا ، میں اور اہلیہ دونوں حج میں گئے ، بیٹا نہ جاسکا۔ اس کے بعد ۲۰۰۶ء کے حج میں اپنے بڑے بیٹے کو ساتھ لے جانا چاہا ، تو وہ منظور ہوگیا ، میرے ایک بیٹے مولوی محمد راشد سلّمہ نے کہا کہ اب ترتیب درست ہوگئی ہے ، چنانچہ وہ حج بڑے بیٹے مولوی محمد عارف سلّمہ کی معیت میں بخوبی گزرا۔ اس کے بعد پھر توفیق ہوئی تو دوسرے بیٹے حافظ محمد عادل سلّمہ کے ساتھ آیا ۔ اس ترتیب کا تقاضا ہے کہ باقی اولادوں کی معیت میں بھی حج ہوتا رہے ، مگر میں بوڑھا ہورہاہوں ، آئندہ نہ جانے کیا حالات ہوں ، میں نے اپنے اﷲ سے ہمت کرکے یہ بھی دعا کرلی کہ باقی اولادوں کی معیت بھی مجھے حاصل رہے۔ پچھلے سال ایک بزرگ نے مدینہ طیبہ میں اس کی دعا کی تھی ، قبولیت کا امیدوار ہوں ۔ خدا جانے یہ بات لکھنے کی تھی یا نہیں ؟ مگر لکھ ڈالی ، اﷲ تعالیٰ مجھے معاف فرمائیں ۔
بلڈنگ پر پہونچے تو بس آچکی تھی ، اور حاجیوں کے سامان زیادہ تر لد چکے تھے ، ہم