تکلف نمازیوں کے سامنے گزرتے رہنے کا دستورسا ہوگیا ہے ، مسجد نبوی میں بھی لوگوں نے یہی دستورِ گناہ بنا رکھا ہے ، یہاں کے علماء حنفیت اور تصوف کی مخالفت تو شاید اپنا فرض سمجھتے ہیں ، لیکن ان گناہوں پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔
مسجد حرام میں عورتوں کی نماز کا مسئلہ بہت شدید ہے ، عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ نمازیں پڑھتی ہیں ، جبکہ فرض ہے کہ ان کی صفیں مردوں ہی نہیں بچوں کے پیچھے ہوں ، مگر اس پر یہاں کے لوگ جو حنفیت اور تصوف کو گمراہی کہتے نہیں تھکتے ، پورے طور پر توجہ نہیں دیتے ، مردوں ، عورتوں کا مخلوط طواف خود ایک سنگین مسئلہ اور خلاف شرع طریقہ ہے ، لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں ، جو جیسے کرے سب ٹھیک ہے ، بسااوقات ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دین کے ساتھ کھلواڑ ہورہا ہے۔
حج کے مسائل میں بھی یہی تساہل ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حج میں کوئی غلطی ہوتی ہی نہیں ، احناف کسی مسئلہ میں اگر بتادیں کہ دم واجب ہوگا ، تو یہ اس پر ہنستے ہیں جیسے دین کو یہ لوگ مشکل بنارہے ہوں ، حج کرنے ہر مسلک کے لوگ آتے ہیں ، یہاں کے ذمہ داروں پر واجب ہے کہ ہر مسلک کے مسائل کی رعایت کریں ، مگر یہ سب پر اباحیت کو مسلط کرنا چاہتے ہیں ، جیسے کرلو ، سب ٹھیک ہے۔
بعض اور باتیں بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہیں ، اسلام نے مسلمانوں کو شکل وصورت ، رہن سہن، لباس وپوشاک ، سب کی ایک خاص تہذیب عنایت کی ہے ، کپڑا ایسا ہو جس سے ستر پوشی ہوتی ہو ، پاجامہ ، لنگی یا کرتا ٹخنوں سے نیچا کرنے کی سخت ممانعت ہے ، اسلامی تہذیب میں ننگے سر رہنا معیوب ہے ۔ رسول اکرم ا نے پگڑی کی تاکید فرمائی ہے ، ورنہ کم ازکم ٹوپی رہے ، چہرے پر داڑھی رکھناباتفاق ائمہ واجب ہے ، مگر عالم اسلام سے آئے ہوئے مجمع کو دیکھئے ، تو عجیب نقشہ نظر آتا ہے ، ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان کے حجاج نہ ہوں ، تو چہروں سے داڑھی غائب ، سر پر ٹوپی ندارد، ٹخنوں کے اوپر لنگی پاجامہ قصۂ ماضی ! بہت افسوس ہوتا ہے کہ داڑھی منڈانے کا عالم اسلام میں عام رواج ہے ۔ انگریزوں