بجائے سیدھا کمال شاہ کے پاس پہونچا اور سارا ماجرا عرض کیا ، کمال شاہ جوش میں اپنی کر گہہ کے پاس گئے ، اور لکڑی کا پیالہ جس میں کپڑا بننے والے پانی رکھتے ہیں ، جسے ’’کٹھوت‘‘ کہتے ہیں ، اٹھالائے ،اور فرمایا : من ہو چنگا تو کٹھوت میں گنگا
یعنی اگر دل سلامت ہوتو کٹھوت ہی میں گنگامائی آجائیں گی ، یہ کہنا تھا کہ کٹھوت میں ایک ہاتھ نمودار ہوا، کمال شاہ نے وہ کنگن اتار کرپنڈت کو دیدیا۔
میں نے کہا کہ اپنے باطن کو سنوارنے کی کوشش کرنی چاہئے ، اور اس کی خوبصورتی ادب سے ہوتی ہے ۔ اﷲ کا ادب، اﷲ کے شعائر کا ادب ، نبی کاادب ، نبی کی تعلیم کا ادب ! آدمی باادب ہوتو جہاں رہے گا کعبہ اور حجر اسود اس کے پاس ہوگا ، دین کی عمدہ ترین خصلت ادب ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ادب بہت کم رہ گیا ہے ، یہ حرم ہے ، یہ کعبہ ہے ، لیکن اس طرح شور ہوتا ہے جیسے بازار اور میلہ ہو۔
حضرت ابراہیم ابن ادہمؒ حج کے لئے آئے، تو کعبہ کو نہ پایا ، نگاہِ باطن سے دیکھا ، تو وہ ایک پارسا خاتون کے استقبال کے لئے گیا ہے ، آج کے ظاہر بیں اس واقعہ کا مذاق اُڑاتے ہیں ، یہاں صحن حرم میں ایک صاحب کا وعظ بڑے زور وشور سے ہوتا ہے ، میں آج سے اٹھارہ انیس سال پہلے حج میں آیا، تو ایک روز ٹھہر کر ان کی تقریر سننے لگا ، وہ یہی واقعہ بیان کرکے اس کا مذاق اڑارہے تھے ، مجھے بہت ناگوار ہوا، اس کے بعد میں نے ان کی تقریر نہیں سنی ۔ بات یہ ہے کہ کعبہ صرف دیوار اور چھت کا نام نہیں ، کعبہ کی حقیقت وہ ’’تجلیات ربّانی ‘‘ ہیں ، جو خصوصیت سے اس مقدس جگہ اترتی رہتی ہیں ، یہی حقیقت کعبہ در حقیقت قبلہ ہے ، ورنہ آدمی حرم شریف کی چھت پر ہوتا ہے ، کعبہ کی دیوار وہاں تک نہیں پہونچتی ، مگر قبلہ درست ہے ، اگر خدا نخواستہ ، اﷲ نہ کرے کعبہ کی دیوار منہدم ہوجائے ، تو کعبہ فنا نہیں ہوگا ، اس جگہ ہونے کی وجہ سے یہ عمارت بھی متبرک ہوگئی ہے ، تو واقعہ کا حاصل یہ ہے کہ ابراہیم ادہم نے نگاہِ باطنی سے دیکھا تھا کہ تجلیاتِ ربانی ایک عفیفہ کی جانب متوجہ ہیں ، ورنہ دیواریں تو اپنی جگہ موجود تھیں ، میں نے کہا کہ مومن کی وقعت بہت زیادہ ہے ، دیکھئے آدمی ایسی جگہ ہو،