الگ وقت متعین ہے : إِنَّ الصَّلوٰۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتاً۔ مومنین پر نماز وقت وقت کے اوپر فریضہ ہے ، اگر ایک وقت کی نماز فوت ہوجائے ، تودوسرے وقت میں قضا کی جائے گی ، شریعت میں یہی حکم ہے ، اور بات معقول اور قیاس کے مطابق ہے، لیکن نماز کو وقت سے پہلے ادا کرنے کی کوئی نظیر نہیں ہے ، وہ نہ ادا ہوگی، نہ قضا ہوگی، وقت سے پہلے نماز کاادا کرنا قطعاً خلاف قیاس ہے ، یہ خلافِ قیاس عمل اگر کہیں مشروع ہواہے ، تو اس کو جاری کرنے کے لئے وہ تمام شرطیں ملحوظ رکھنی ضروری ہیں ، جن کی بنیاد پر اس کا جواز ثابت ہوا ہے ، اور اس کو عمل میں لانے کے لئے دلیل بھی اتنی قوی اور طاقت ور ہونی چاہئے ، جتنی قوی دلیل سے نماز کا موقت ہونا ثابت ہے ۔
نماز کا موقت ہونا اور ان کے اوقات کا متعین ہونا ، تو قرآن کریم سے اور تواتر قولی اور عملی سے ثابت ہے ، اب اگر کسی نماز کو اس کے وقت سے پہلے پڑھنا ہے ، تو گویا اس کا وقت بدل دیا گیا ہے ، اس تبدیلی کے لئے ویسی ہی دلیل چاہئے ، پھر اس دلیل کی تشکیل جس طور پر ہوئی ہے ، وہی طریقہ ضروری ہے ۔
جمع تقدیم یعنی ایک نماز کو اس کے وقت سے مقدم کرکے پہلے والی نماز کے ساتھ جوڑنا ، یہ دلیل قطعی متواتر سے کسی جگہ اور کسی وقت ثابت نہیں ہے ، سوائے میدان عرفات کے کہ ۹؍ ذی الحجہ کو رسول اﷲ ا نے ظہر اور عصر دونوں نمازیں ظہر کے وقت میں ایک اذان اور دواقامت سے ادا فرمائی ہیں ، اور یہ بات تواتر سے ثابت ہے ، تو ثبوت اس کا تواتر سے ہے ، اس لئے یہاں جمع تقدیم واجب ہے ، لیکن جس طور پررسول اﷲ ا نے ادا فرمایا طریقہ وہی ہونا ضروری ہے ، اور طریقہ ظاہر ہے کہ آپ جماعت کے امام تھے ، اور تمام صحابہ آپ کے مقتدی تھے، تو یہ طریقہ شرط ٹھہراکہ امام الحج ہو ، جو سلطان یا نائب سلطان ہو ، تب تو نماز کو وقت سے پہلے ادا کیا جائے گا ، ورنہ ہر نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا ضروری ہو گا۔
حنفیہ کا صدیوں سے اسی پر عمل ہے ، اور اسی پر فتویٰ ہے ، اس مسئلے میں نہ کوئی سختی ہے نہ کوئی دشواری! مگر سعودی عرب میں ایسی ہوا چلائی گئی ہے ، جیسے حنفیہ کا مسلک حدیث