جھک جھک سننی پڑتی ہے ۔
میں جس سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا ، اس کے پیچھے ایک صاحب جن کا تعلق تبلیغی جماعت سے معلوم ہوتا تھا ، بے تکلف فتووں کی بوچھار کئے ہوئے تھے ، ان کے متعدد رفقاء تھے ، وہ ان سے پوچھتے تھے ، اور وہ بے تکلف چلا چلا کر اس طرح مسائل بیان کرتے تھے ، اور لوگوں کو مشورے دیتے تھے ، جیسے دین انھیں نے وضع کیا ہو۔
مثلاً ایک شخص نے وضو کے بارے میں ان سے سوال کیا ، تو فرمایا کہ بیت الخلاء میں پانی مت گرانا، ہاتھ بھگوکر منہ پر ہاتھ پر اور پیر پر ہاتھ پھیرلوکہ وہ سب اعضاء بھیگ جائیں ، بس وضو ہوگیا، اور وہ صاحب غالباً اسی طرح وضو کرکے آئے تھے ، کسی نے پوچھا کہ نماز کیسے پڑھیں ؟ فرمایا کہ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ، سامنے جو کھانا کھانے کے لئے تختہ رہتا ہے اسے کھول لو، اور بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ لو، اور سجدہ کھانے کے تختہ پر کرو، نماز ہوگئی ، دیکھو کتنا آسان مسئلہ ہے۔
اس کے بعد جہاز کے عملے سے کہنے لگے کہ تھوڑی سی مٹی نیچے سے لادوتاکہ ہم لوگ تیمم کرلیں ، ان مسائل میں پورے دورانِ سفر وہ حلق کی پوری طاقت لگالگا کرچلاتے رہے ، میں تو حیران تھاکہ یااﷲ ! یہ صاحب اﷲ پر کتنے جری ہیں ، اور یہی نہیں اسی طرح اور دوسرے مسائل پر بھی وہ طبع آزمائی اور رائے زنی کرتے رہے ، میں دم بخود سنتا رہا۔
ایک صاحب اور سامنے آئے ، وہ اپنے دعوے کے مطابق عالم تھے، انھوں نے لوگوں کو ہدایت کی کہ جو مسائل پوچھنے ہو ں میں موجود ہوں ، ان سے بعض لوگوں نے میرے متعلق بتایا ، مگر وہ ہاں ہاں کرکے رہ گئے ، اس کے بعد انھوں نے فلائٹ کے لاؤڈ اسپیکر کو استعمال کرنا شروع کیا ، اور الٹے سیدھے مسائل بتانے لگے ، ان کی تقریر سے اندازہ ہوا کہ وہ بریلوی ہیں ، اور مسائل سے کوئی خاص واقفیت نہیں رکھتے ، انھوں نے بھی تیمم کے مسئلے پر زور دیا ، اور یہ بھی بتایا کہ سجدہ کے لئے اشارہ کرنا کافی ہے ، کھانے کے تختے پر سر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔