پڑھاتے رہے ، اور لوگ جامۂ احرام پہنے ہوئے لبیک پڑھتے رہے ۔ اوّلاً تو لبیک پڑھنے پڑھانے کا یہ طریقہ حسب تصریح علماء وفقہاء صحیح نہیں ہے ، پھر جامۂ احرام پہن لینے کے بعد ظاہر ہے کہ حج یا عمرے کی نیت ہوجاتی ہے ، زبان سے کچھ کہنے کا نام نیت نہیں ، دل کے ارادے کانام نیت ہے ، تو نیت موجود ہے ، اس پر لبیک پڑھ لی گئی ، تو احرام مکمل ہوگیا ، اور اس کی پابندیاں عائد ہوگئیں ، اب اس کے بعد ان کو یہ بتاتے رہنا کہ حج کی یا عمرے کی نیت فلاں جگہ سے کریں گے ، ابھی احرام نہیں ہوا ہے ، غلطی میں ڈالنا ہے ۔ تلبیہ کا بلند آواز سے پڑھنا حج کا شعار اور احرام کی علامت ہے ، اسے حالت احرام ہی میں پڑھنا چاہئے ،وہ عام دعاؤں کی طرح نہیں ، ہاں عام دعاؤں کی طرح سراً کوئی پڑھتا ہے ، تو اس کی بات اور ہے ، لیکن جامۂ احرام میں جب کوئی تلبیہ پڑھے گا ، تو دوسروں کو بھی خیال ہوگا ، اور خود حاجی بھی یہ خیال کرے گا کہ میں احرام والا لبیک پڑھ رہا ہوں ، لیکن برا ہو ظاہرداری اور نمائش کے جذبے کا کہ اس نے عبادتوں کو بھی نمائش بنا کر رکھ دیا ہے۔
ایر پورٹ پہونچ کر زرِمبادلہ کے ریال ۲۰۵۰؍ریال ملے ، ہم لوگ ایر پورٹ کی حفاظتی فارملٹیوں کو پورا کرتے ہوئے اندر پہونچ گئے ، بنارس کاا یر پورٹ چھوٹا ہے ، اس لئے حج کے لئے اسے چھوٹا جہاز ۱۷۰؍ سواریوں والا دیا گیاہے ، اس میں بڑی قباحت یہ ہے کہ بنارس سے جدہ ۹؍۱۰؍ گھنٹے میں پہونچتا ہے ، درمیان میں احمد آباد اور شارجہ میں تیل لینے کے لئے اترتا ہے ، اس وقفہ میں کسی مسافر کو جہاز سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی ، جن مسافروں کو طہارت ونماز سے کوئی مطلب نہیں ، ان کے لئے تو کوئی خاص بات نہیں ، لیکن یہ حاجیوں کا قافلہ ہے ، اسے طہارت کا بھی اہتمام ہے ، نمازیں بھی ادا کرنی ہیں ، پھر عازمین حج میں ایک بڑی تعداد بوڑھوں کی ہوتی ہے ، انھیں پیشاب پاخانے کا بار بارتقاضا ہونا بعید نہیں ، ادھر ہوائی جہاز میں پانی گرانا ممنوع ، چھوٹا استنجاہو یا بڑا، کاغذ استعمال کرنے کا حکم ہے ، سمجھا جاسکتا ہے کہ اس طریقۂ عمل سے مطلوبہ طہارت کہاں تک حاصل ہوگی ، پھر وضو کرنے کی بالکل اجازت نہیں ، تو آدمی نماز کس طرح پڑھے ، ہماری فلائٹ کا وقت ۲۰؍۱۲ بجے تھا ،