ہے ، جس کا نام ’’ حج سیوا سمیتی ‘‘ ہے ، اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے وہ مسلسل حجاج بیت اﷲکے لئے سہولیات کے واسطے کوشاں رہتے ہیں ، انھیں کی کوششوں سے یو۔پی کے حجاج کے لئے بجائے ممبئی اور دہلی کے پروازوں کا سلسلہ لکھنؤ سے شروع ہوا ، اور اب پھر انھیں کی جدوجہد سے مشرقی یو۔پی کو خاص سہولت ملی ، یعنی اس سال بنارس سے ہوائی جہازوں کے پرواز کی اجازت ملی ، چنانچہ ۱۶؍ نومبر سے بنارس کی پرواز شروع کئے جانے کااعلان ہوا۔ ۱۶؍ سے ۳؍ دسمبر تک! جس کوٹے سے میرے لئے حج کی منظوری ہوئی ، وہ مذکورہ ترتیب میں شامل نہیں تھا ، اس لئے بکثرت سوال ہوتا تھا کہ کب جائیں گے اور کہاں سے جائیں گے ؟ میں تو اطمینان سے جواب دیتا رہا کہ کچھ معلوم نہیں کہ کب جانا ہے ، لوگوں کو شبہ ہونے لگا کہ جانا ہے بھی یا نہیں ؟ مجھے اطمینان تھا کہ یہ منظوری حق تعالیٰ کی جانب سے ہے ، اس لئے سفر ہوگا۔ ان شاء اﷲ
۵؍ دسمبر کو خبر ملی کہ ۱۱؍ کو بنارس سے فلائٹ ہے ۔ ۱۰؍ دسمبر کو مدرسہ اور گھر سے رخصت ہوکر رات کو عشاء کے وقت بنارس حاجی منظور احمد صاحب کے گھر پہونچا۔ ساتھ میں میرے بیٹوں کے علاوہ مولانا انتخاب عالم صاحب قاسمی ، ناظم مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور، اور عزیزان گرامی مولانا محمد اسجد اور مولانا سلمان احمد اعظمی بھی تھے ، حاجی منظور احمد صاحب گھر پر موجود نہ تھے ، سفر میں تھے ، ان کے صاحبزادگان عزیزم الحاج محمد صالح والحاج محمد انعام سلّہما نے خدمت کا حق ادا کیا ۔ صبح فجر کی نماز کے بعد حج ہاؤس ، سرسیّد بپلک اسکول کی طرف چلے ، راستے میں اردلی بازار میں جہاں حافظ نوشاد احمد صاحب کاقیام تھا ، ان سے ملے ، پاسپورٹ اور سب کاغذات انھوں نے حوالے کئے ، اور ہم لوگ عارضی حج ہاؤس سرسیّد پبلک اسکول میں آگئے ۔ یہاں متعدد دوستوں سے ملاقات ہوئی ، انتظامیہ کی جانب سے حکم تھا کہ جامۂ احرام یہیں پہن لو ، اور ضروری کاغذات لے لو ، پھرایر پورٹ کی بس پر بیٹھ کر ایر پورٹ جاؤ، چنانچہ ہم اپنے دوستوں سے رخصت ہوکر بابت پور ایر پورٹ پر پہونچ گئے ، بس پر ایک بریلوی مسلک کے مولوی صاحب کچھ بیان کرتے رہے ، اور لبیک