کررکھی ہے ۔ انھوں نے ایک بات اور کہی کہ جو حضور پاک ا کی روح کو روضۂ اقدس میں موجود نہیں مانتے ہیں ،ا ن سے پوچھو میرے کان میں حضور پاک ا کی آواز کیسے آرہی ہے۔
گو مسجد نبوی کے ریاض الجنۃ اور صفہ میں خاصا وقت گذرا، پر دل کو سیری نہ ہوئی ، وقت رخصت عجب کیفیت تھی ۔ایک محرومی، ایک تشنگی ستارہی تھی اور الوداعیہ سلام غمزدہ کررہا تھا ۔ حضرت نے اس گھڑی دعاء کی کہ اپنے کسی پیارے بندے سے ملا، سلام پیش کرکے لوٹتے ہوئے ایک بزرگ نے حضرت کو مخاطب کیا اور کہا کہ آج آپ رخصت ہورہے ہیں نا! نہ کبھی کی ملاقات نہ کسی طرح کی شناسائی، یقینا اﷲ کی طرف سے ان کے دل میں یہ بات ڈالی گئی ہوگی۔
مدینہ سے ۱۵۔۱۵؍ کلو کھجور لے لی گئی ، وزن زیادہ ہوگیا تھا ۔ معلوم ہواکہ ۳۰؍کلو سے زائد کی اجازت نہیں ہے، کھجور کی تھیلیاں تو مدھیہ پردیش کے ساتھیوں کے سامان میں شامل کردی گئیں ، اب باقی سامان کے اضافی وزن کا مسئلہ تھا ، حضرت نے توجہ فرمائی ، وزن کرنے والا مہربان ہوگیا اور بہ آسانی یہ مرحلہ طے ہوگیا۔
حضرت کے سفر حج کے ایک پرانے رفیق مفتی محمدعمر صاحب بھی ممبئی ہی سے ساتھ رہے، واپسی بھی ساتھ ہی ہوئی۔ مدینہ ایر پورٹ پر خاصا وقت گذارنا پڑا، بھوک ستانے لگی، سوکھی روٹی اور چاٹ مسالہ تھا ، ہم لوگوں نے کھاکر پانی پیا، بڑا لطف آیا۔ جہاز کی پرواز میں دیر تھی ، عصر کا وقت ہواچاہتاتھا، گھڑی پر نظر تھی کہ وقت ہوتے ہی نماز پڑھ لی جائے ، اسی اثناء میں ہندوستانی عملہ کا ایک فرد مصر ہوگیا کہ جہاز کی طرف کوچ کرو، جبکہ کچھ لوگ لانج میں موجود تھے ، اس کی شدت پسندی کھل رہی تھی، انداز بھی گستاخانہ تھا ، خیر کی نماز ادا کرکے ہی ہم لوگ جہاز پر سوار ہوئے۔
ممبئی ہوائی اڈے پر مولانا مستقیم صاحب اور زیدی صاحب …جو ایر پورٹ میں کسی اونچے عہدے پر فائز ہیں …وہ اور ان کے ماتحت موجود تھے ، ضروری مراحل طے کرکے باہر آگئے ، ایک روز ممبئی میں ٹھہر کر اپنے اپنے گھر لوٹ گئے۔