اس محب صادق اور عاشق زار کو حالات کی گردشوں نے اتنا پختہ بنادیاتھا کہ بلائیں سہتے سہتے اور اپنے حالات پر ملامتیں سنتے سنتے سینہ سپر اور مضبوطی میں پہاڑ بن گئے تھے ، غرضیکہ مولاناکو اس منزل تک پہونچنے میں کہ تخلق باخلاق اﷲکی صفات کا ظہورمخلوق کے سامنے ہونا تھا،عرفان ومحبت کے راستے میں بڑی بڑی رخنہ اندازیاں تکوینی طور پر ہوتی رہیں ، آخر وہ محبت ہی کیا ہے جس میں کیل کانٹے نہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے مولانا کی محبت میں بات طویل کردی ، قلم پر قابو نہ پاسکا، معاف فرمائیں ۔
اب ایک طرف مولاناکی دلنواز طبیعت اور دلکش شخصیت ہے ، دوسری طرف اعزاء واقرباء ،محبین ومخلصین اور عقیدتمندوں اور طلبہ کا ہجوم ہے ،پھر ہمسفر کارواں کی خواہشات و جذبات سب کے ساتھ حضرت والا کا برتاؤہے ۔لوگ حالت اقامت میں حقوق کی رعایت نہیں کرپاتے حالت سفر میں تواور رخصت کے طالب ہوتے ہیں ۔ لیکن آپ اس کتاب میں پائیں گے کہ جہاں لوگ ہیبت کی وجہ سے حواس باختہ اور سراسیمہ ہوجاتے ہیں وہاں شریعت کا پورا پورا پاس ولحاظ ہے ، خدماتِ خلق کا اعلیٰ جذبہ کارفرماہے ، مقامات مقدسہ کے ساتھ تاریخی آداب کا لحاظ ہے ، سفر کی دشواریوں میں ہر مشکل کا حل منجانب اﷲ کس طرح ہوتا ہے۔
سب کو جسمانی وروحانی غذادی جارہی ہے ، ہر ایک اپنی جگہ پر مطمئن ہے کہ ہم بہرہ ور اور خوش نصیب ہیں کہ ایک مقبول ومحبوب بندے کی صحبت سے شب وروز فیض پارہے ہیں ؎
بہارعالم حسنش دل وجاں تازہ می دارد برنگ اصحاب صورت را بہ بو اصحاب معنیٰ را
بطوافِ کعبہ رفتم۔۔۔۔۔۔ مسائل ودلائل کی روشنی میں نہ سہی لیکن اس حیثیت سے کہ ایک عارف کامل ،ایک محب صادق اور خداورسول کے عشق میں وارفتہ شخص کا عاشقانہ اور نیازمندانہ سفرنامہ ہے ، اس میں اسے وہ سب کچھ ملے گا جو واحوال وکوائف اور تنبیہات ایک حاجی کو مطلوب ہیں ، یہ ایک ایسے رفیق کی ضرورت پوری کرتی ہے جو موقع بموقع اپنے ہمسفر کو نرم اورگرم کرتی رہے اور رہنمائی کرے۔حضورپاک ا اور صحابہ کرامث نے احرام اس