سارکھا ہوا ہو۔ اس کو بغیر حجت شرعی کے کافر کہہ دینا بڑی بھاری ذمہ داری اپنے اوپر لینا ہے۔ کیونکہ شریعت ظاہر ہے باطن نہیں اورقاضی صاحب اس میں شک نہیں کہ مرزا قادیانی نے جو لکھا ہے کہ دیکھا آج تم میں ایک ہے کہ اس حسین سے بڑھ کر ہے۔ نیز یہ کہ علی کو شرف صحبت رسول اﷲ سے جو حاصل ہے۔ وہ چھوڑ کر سب کمالات ظلی طور پر اﷲ جل شانہ نے مجھ کو عطا کئے۔ اس سے آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ مرزا جھوٹ کہنے والا آدمی نہ تھا۔ سچ کا پتلا تھا اور جیسا اس کوالہام و وحی کے ذریعہ معلوم ہوتا تھا۔ راست راست بے کم و کاست کہہ دیتا تھا۔ خواہ کسی کو بھلا معلوم ہویا برا۔ اس کی سخاوت کا حال تو آپ نے سینکڑوں کتابوں میں پڑھا ہوگا۔ایک بیوی کو باغ کا باغ ہی بخش دیا۔باقی رہی شجاعت۔اس کا حال بھی سن لیں۔ نبی کی حیثیت سے آپ ایک مدت تک اپنے الہامات شائع کرتے رہے۔ لیکن جب مولوی محمد حسین صاحب مرحوم نے آپ کو عدالت کی طرف کھینچا کہ یہ شخص لوگوں کی موت کے الہام بیان کرکے ان کے دلوں کو مشوش کرتا ہے اور مجسٹریٹ نے آنکھ دکھائی۔ تو آپ نے یہ اقرار نامہ لکھ دیا:
۱… میںایسی پیشین گوئی شائع کرنے سے پرہیز کروںگا۔ جس کے یہ معنی ہوں کہ ایسے معنے خیال کئے جائیں کہ کسی شخص کو(یعنی مسلمان ہو خواہ ہندو ہویاعیسائی وغیرہ) ذلت پہنچے گی یا وہ موروعتاب الٰہی ہوگا۔
۲… میں خدا کے پاس ایسی اپیل(فریاد ودرخواست) کرنے سے بھی اجتناب کروں گا کہ وہ کسی شخص کو(یعنی وہ مسلمان ہو یا ہندو وغیرہ) ذلیل کرنے سے یا ایسے نشان ظاہر کرنے سے کہ وہ مورد عتاب الٰہی ہے،یہ ظاہر کرے کہ مذہبی مباحثہ میں کون سچا اورکون جھوٹا ہے۔
۳… میں کسی چیز کو الہام جتاکر شائع کرنے سے مجتنب رہوںگا۔ جس کا یہ منشاء ہو یا جو ایسا منشاء رکھنے کی معقول وجہ رکھتا ہو کہ فلاں شخص(یعنی مسلمان ہو خواہ ہندو ہو یاعیسائی)ذلت اٹھائے گا۔ یا مورد عتاب الٰہی ہوگا۔
۴… میں اس امرسے باز رہوںگا کہ مولوی ابو سعید محمد حسین یا ان کے کسی دوست یا پیرو کے ساتھ مباحثہ کرنے میں کوئی دشنام آمیز فقرہ یا دل آزار لفظ استعمال کروں یا کوئی ایسی تحریر یا تصویر شائع کروں جس سے ان کو درد پہنچے۔میں اقرار کرتاہوں کہ ان کی ذات کی نسبت یا ان کے کسی دوست یا پیرو کی نسبت کوئی لفظ مثل دجال،کافر،کاذب نہیں لکھوں گا۔ میں ان کی پرائیویٹ زندگی یا ان کے خاندانی تعلقات کی نسبت کچھ شائع نہیں کروں گا۔ جس سے ان کو تکلیف پہنچنے کا عقلاً احتمال ہو۔