اے آنکھ والو! عبرت حاصل کرو ۔ جس نے دوسروں کو ہیضہ کے عذاب سے ڈرایا اور ہیضہ سے موت کی بددعا کی اوردھمکی دی۔ اس کا انجام یہی ہوا کہ خود اس کا انتقال ہیضہ سے ہوا۔ یہ قدرت کافیصلہ تھا کہ دنیا جھوٹے کے انجام کو دیکھ لے۔
(۷)کیا قادیانیوں کو مسلمانوں کا فرقہ سمجھاجاسکتاہے؟
اکثر غیر مسلم اصحاب پوچھتے ہیں کہ کیوں قادیانیوں کو مسلمانوں ہی کا فرقہ نہیں سمجھا جاتا اور کیوں ان کو کافر اوراسلام سے خارج سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ وہ مسلمانوں کا کلمہ ہی پڑھتے ہیں۔ قرآن کو اﷲ کی کتاب مانتے ہیں اور رسول ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔
پہلا جواب تو یہ ہے کہ جب قادیانی،مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں تو انہیں کوئی حق باقی نہیں رہتا کہ خود کو مسلمانوں کے ایک فرقہ کی نوعیت دینے کی کوشش کریں۔
پہلے غلام احمد قادیانی کامؤقف یہ تھا کہ ان کا دعویٰ چونکہ نئی شریعت لانے اورجاری کرنے کا نہیں ہے۔ بلکہ شریعت محمدی کی اتباع کا ہے اس لئے مثیل مسیح یا مسیح موعود ہونے کے ان کے دعوے سے انکار کرنے والاکافر نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنے اس مؤقف کااظہار ذیل کی تحریر میں کیا: ’’ابتداء سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوے کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہو سکتا۔یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعوے کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف ان نبیوں کی شان ہے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے شریعت اوراحکام جدید لاتے ہیں۔ لیکن صاحب شریعت کے سوا اور جس قدر محدث ہیں گو وہ کیسے ہی جناب الٰہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلوت مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں۔ ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۳۰،خزائن ج۱۵ص۴۳۲)
اپنے ان دعوؤںاورپیش گوئیوں کی طرح اس مؤقف پر مرزاقادیانی قائم نہ رہ سکے اور کچھ ہی عرصہ بعد مؤقف بدل کر کہا یہ کہ اس کے دعوؤں کا ماننا واجب ہے۔ انکار کرنے والا قیامت میں جواب دہ ہوگا۔ بس اتنا ہی مؤقف رکھا اور انکار کرنے والے کو کافر کہنے سے پس و پیش کیا۔ مؤقف یہ تھا: ’’میں خدا کا ظلی اوربروزی طورپرنبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے اورمسیح موعود ماننا واجب اور ہر ایک جس کو میری تبلیغ پہنچ گئی ہے۔ گو وہ مسلمان ہے مگر مجھے اپنا حکم نہیں ٹھہراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتا ہے اور نہ میری وحی کو خدا کی طرف سے جانتا ہے وہ آسمان پر قابل مواخذہ ہے۔ کیونکہ جس امر کو اپنے اپنے وقت پرقبول کرنا تھا،رد کر دیا۔‘‘
(تحفۃ الندوہ،ص۴،خزائن ج۱۹ص۹۵)