پیغمبروں کا منصب نبوت سے معزول ہوناممکن نہیں ہے
بادشاہان دنیا اورخداوند تعالیٰ کے انتخاب میںاتنا فرق ہے کہ بادشاہان دنیا جس کو ظاہر و باطن میں مطیع و فرمانبردار سمجھ کر قرب عطاء فرمادیں۔ اس میں دو طرح سے غلطی کااندیشہ ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ ممکن ہے کہ وہ کسی شخص کو مطیع و فرمانبردار سمجھ کرمنصب عطاء کردے۔ لیکن واقع میں وہ مطیع نہ ہو۔بلکہ مکار ہو اورباطن میں بادشاہ کا سخت دشمن ہو۔ تو اس غلطی کی وجہ سے وہ اپنے مخالف و دشمن کو منصب قرب عطاء کردے۔
دوسری غلطی یہ ہے کہ ایک شخص واقع میں بادشاہ کا ظاہر وباطن میں مطیع و فرمانبردار ہے اور بادشاہ کا مقرب ہے۔ لیکن بادشاہ کو اس کے متعلق بدگمانی پیدا ہو جائے تو اس غلطی کی وجہ سے وہ ایک سچے مطیع و فرمانبردار کو منصب قرب سے معزول کردے۔
مگرچونکہ خداوند تعالیٰ عالم الغیب ہے اور دلوں کے راز کو بھی جانتاہے۔لہٰذا نہ تو وہ مخالف ومکار کو مطیع سمجھ کر منصب نبوت عطا کرتا ہے اور نہ کسی نبی کو بوجہ بدگمانی کے منصب نبوت سے معزول فرماتاہے۔ اس لئے کہ خداوند کا انتخاب ایسا صحیح ہوتاہے کہ ممکن نہیں کہ جس شخص کو اﷲ تعالیٰ ظاہر وباطن میں مطیع وفرمانبردار سمجھے اورمنصب نبوت پر مقرر فرما دے۔ اس سے کبھی بھی معصیت کا صدور ہو بلکہ اس سے تو ارادہ معصیت بھی ممکن نہیں۔ ورنہ خداوند تعالیٰ کے علم کے خلاف لازم آئے گا اور یہ ممکن نہیں ہے لہٰذا جس شخص کو اﷲ تعالیٰ منصب نبوت عطا فرما دے۔ اس سے معصیت کا ہونا غیر ممکن ۔
پس اس کا منصب نبوت سے معزول ہونا بھی غیر ممکن۔اس لئے کہ بغیر قصور کے تو دنیا کے بادشاہ بھی معزول نہیں کرتے تو احکم الحاکمین کے متعلق یہ خیال کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ کسی مقرب کو بغیرکسی قصور کے منصب نبوت سے معزول کردے۔ اس کے متعلق ارشاد ہے۔ سورئہ الضحی کی اس آیت میں :’’والضحی والیل اذاسجی ماودعک ربک وماقلیٰ‘‘{ قسم ہے دن کی روشنی کی اوررات کی جبکہ وہ قرار پکڑے کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا اور نہ (آپ سے)دشمن کی۔}
چند دن وحی نہ آنے کی وجہ سے کفار نے یہ کہنا شروع کیا کہ ان کے رب نے ان کو چھوڑ دیا۔ اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ آپ کو نبی بنانے کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ یعنی منصب نبوت سے معزول کر دیا جائے۔ آپﷺ توآپﷺ ہی ہیں۔ مراد یہ ہے کہ کسی نبی کو معزول نہیں فرمایا جاتا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ