خدمت نبوت میں تخفیف کر دی جائے۔چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب بالائے آسمان بحالت تخفیف ہیں۔
پیغمبر خود مختار نہیں ہوتے
جیسا کہ بادشاہوں کے خواص اور مقرب بارگاہ مطیع و فرمانبردار تو ہوتے ہیں۔ لیکن شریک سلطنت نہیں ہوتے تاکہ خود مختار ہوں اور جس کو چاہیں دے دیں یا جس کو چاہیں مروا ڈالیں۔ بلکہ بوجہ قرب صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ کسی دوست کی سفارش کر دیں اور دشمن کی شکایت کر دیں۔ ایسا ہی انبیاء علیہم السلام بھی شریک خدائی نہیں ہوتے۔ اس لئے ان کو یہ اختیار نہیں کہ جس کو چاہیں جنت دیں اور جس کو چاہیں دوزخ میں بھیج دیں۔ البتہ ان کوبوجہ قرب کے یہ حق ہوتاہے کہ کمال ادب سے کسی کی سفارش کردیں یا کسی کی شکایت اور دوستوں کی سفارش جو انبیاء علیہم السلام دربارہ ترقی درجات یا مغفرت معاصی خداوند تعالیٰ کے دربار میں قیامت کے روز کریںگے۔ اہل اسلام کی اصطلاح میں اس کو شفاعت کہا جاتاہے۔
الحاصل! انبیاء علیہم السلام کا معصوم ہونا شفاعت کرنا توعقلاً بھی صحیح اورنقلاً بھی ثابت لیکن ان کا گناہ گار ہونا اورخود مختار ہونا ہرگز قرین قیاس نہیں ہے۔ اسی کے متعلق سورئہ ابرہیم کی اس آیت میں ارشاد ہے:’’وما ارسلنامن رسول الابلسان قومہ لیبیّن لھم فیضل اﷲ من یشاء ویھدی من یشاء وھوالعزیز الحکیم‘‘{ہم نے تمام (پہلے) پیغمبروں کو (بھی) ان ہی کی قوم کی زبان میں پیغمبربناکر بھیجاہے تاکہ (ان کی زبان میں) ان سے (احکام الہیہ کو) بیان کریں۔ پھر (بیان کرنے کے بعد)جس کو اﷲ تعالیٰ چاہیں گمراہ کرتے ہیں اور جس کو چاہیں ہدایت کرتے ہیں اور وہی سب (امورپر)غالب ہے اورحکمت والا ہے۔}
مطلب یہ ہے کہ نبی کا کام فقط احکام کا بیان کرنا ہے۔ اس کے بعد ہدایت و گمراہی نبی کے اختیار میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اسی قسم کی آیتیں قرآن شریف میں اور بھی بہت ہیں اور اسی کے متعلق رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے کہ :’’انما اناقاسم واﷲ یعطی‘‘{میں توصرف تقسیم کرنے والاہوں اور دیتاخداہے۔}
پیغمبروں کا انسان ہونا ضروری ہے
یہ امر تو واضح ہوچکا ہے کہ جس ہستی کو منصب نبوت کے لئے منتخب کیا جائے گا اس کامعصوم ہونا یعنی گناہوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس امرکی تشریح باقی ہے کہ وہ معصوم کس جنس کا ہونا چاہئے۔ اس لئے معصوم دوجنسوں کے موجود ہے۔ ملائکہ اورانسان۔ ملائکہ تو سب