ہے کہ آپﷺ کا جسم مقدس منبع البرکات ہے۔ اب ان تمام باتوں کو دیکھ کر اہل انصاف فیصلہ کریں کہ حضورﷺ کے معجزات کے مقابلہ میں معجزات عیسیٰ علیہ السلام کو کیانسبت تھی۔مگر تعصب کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا۔
معجزات موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ
موسیٰ علیہ السلام کا عصاء زندہ ہوکر سانپ بن جاتاتھا۔ اس کے مقابلہ میں رسول اﷲﷺ کے تصدق سوکھی کھجور کی لکڑی زندہ ہوتی ہے۔ سوکھی لکڑی میں جان آجانے میں تو دونوں برابر لیکن اس کے بعدفرق یہ ہے کہ عصاء کی شکل سانپ کی ہو جانے کے بعد اس میں آثار حیات نمایاں ہوتے ہیں تو اس کو شکل میں زندوں کے ساتھ مناسبت پیداہو جاتی ہے ۔ لیکن کھجور کی سوکھی لکڑی کی شکل بھی نہیں بدلتی اپنی اصلی شکل میں رہ کر زندہ ہوتی ہے۔ یہ زیادہ تعجب انگیز بات ہے اور دوسرا فرق یہ ہے کہ عصاء میں صرف معمولی درجہ کا حیات آتا ہے۔ لیکن اس سوکھی لکڑی میں علاوہ حیات کے ادراک و شعور بھی اعلیٰ درجہ کا پیدا ہوتاہے۔جس کی تشریح اوپر گزر چکی ہے اور سانپ میں سواخواص نوع سانپ کے اورکوئی بات پیدا نہیں ہوئی۔
الحاصل عصاء کا صرف سانپ بن جانا اس قدر مستعبد نہیں ہے جس قدر ایک سوکھی لکڑی کا بغیر تبدیلی شکل کے انسان بن جانااور کمال ادراک و شعور ظاہر کرنا اور اسی طرح پتھروں کا انسان کی طرح آپﷺ کو سلام کرناعصا کے سانپ بننے سے بدرجہا زیادہ مستعبد ہے اور ایسا ہی درختوں کا اپنی شکل میں رہ کر حضورﷺ کی اطاعت میں اپنی جگہ سے حرکت کرنا اورپردہ کرنے کی خاطر مل جانا کمال ادراک پر دلالت کرتاہے۔ جو بغیر انسان کے کسی دوسرے حیوان میں نہیں پایا جا سکتا۔ یہ تمام معجزات عصاء کے سانپ بننے اورمردوں کے زندہ ہونے سے بدرجہا مستبعد ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک معجزہ یہ بھی تھا کہ پتھر سے پانی نکلتا تھا۔ اس کے مقابلہ میں حضورﷺ کے دست مبارک سے پانی نکلا۔ پانی تو دونوں جگہ سے نکلا۔ مگر پتھر سے پانی کا نکلنا اتنا تعجب خیز نہیں ہے جتناگوشت و پوست سے نکلنا تعجب انگیز ہے اور علاوہ اس کے پتھر سے پانی نکلنے میں تو صرف قدرت خداوندی کا اظہار ہے۔مگر دست مبارک سے پانی نکلنے میں علاوہ قدرت کے اظہار کے اس بات پر بھی دلالت کرتاہے کہ آپ کا دست مبارک منبع فیوض تھا اورایسا ہی آپﷺ کے لعاب سے کوئیں میں پانی کا زیادہ ہونا بتلاتا ہے کہ جسم مبارک حضورﷺ کا معدن فیوض تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک معجزہ یدبیضا بھی تھا اس کے مقابلہ بعض صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم