اس کے متعلق ارشاد ہے اس آیت میں’’النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسھم (سورہ احزاب)‘‘{نبی کریم ﷺ ایمان والوں کے ساتھ خود ان کے نفس (اورذات) سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں}کیونکہ اگر نفس برا ہے تب تو ظاہر ہے کہ وہ بدخواہ ہے اورحضورﷺ خیر خواہ ہیں اوراگر نفس اچھا ہے۔ تب بھی بعض مصالح اورمنافع اس سے مخفی رہتے ہیں۔ان مصالح کا مشورہ نفس نہیں دے سکتا۔خصوصاً مصالح دینیہ و اخرویہ میں اورحضورﷺ کو خداوند تعالیٰ نے جمیع مصالح ضروریہ کا علم عطاء فرمایاہے اورآپؐ کا اپنی جان سے بھی زیادہ حق ہے اورآپؐ جان سے زیادہ محبوب ہونے چاہئیں۔ اسی لئے فرمایا ہے رسول اﷲﷺ نے کہ کوئی تم میں سے مومن نہیں ہو گا جب تک کہ اس کو میری محبت اپنے باپ اور ماں اوراولاد اوراپنی جان اورسب لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔
پیغمبروں کی تصدیق کا جزو ایمان ہونا
جب یہ بات واضح ہو چکی کہ خداوند تعالیٰ کی رضا جوئی انسان کا اہم ترین فریضہ ہے۔ تو حسب قاعدہ(مقدمہ واجب کا واجب ہوتاہے)جن چیزوں پر خداوند تعالیٰ کی رضا کا حصول موقوف ہوگا۔ ان سب کی تصدیق جزو ایمان ہوگا اور وہ تین چیزیں ہیں۔ انبیاء علیہم السلام، ملائکہ، آسمانی کتابیں۔ کیونکہ آسمانی کتابیں تو رضا جوئی کا مفصل قانون ہوتی ہیں۔ جو مقصود بالذات ہے لہٰذا ان پر ایمان لانا فرض ہوگا اورکتابوں کا حصول موقوف ہوتاہے انبیاء علیہم السلام پر لہٰذا ان پر بھی ایمان لاناضروری ہوگا اورانبیاء علیہم السلام کے پاس کتابوں کا آنا موقوف ہے۔ سلسلہ ملائکہ پر لہٰذا ان پر بھی ایمان لانا لازمی ہوگا۔ الغرض ملائکہ، انبیاء علیہم السلام، آسمانی کتابیں یہ تینوں چیزیں موقوف علیہ ہیں۔ خداوند تعالیٰ کی رضاجوئی کا لہٰذا ان تینوں کی تصدیق جزو ایمان ہوگا اوررضا حاصل کرنے نہ کرنے کی جزا وسزا کے لئے چونکہ قیامت کا دن مقرر ہے۔لہٰذا اس کی تصدیق بھی جزو ایمان ہوگا اورقیامت کے دن جزا وسزا کا دیناموقوف مرنے کے بعد دوبارہ جلانے پر لہٰذا مرنے کے بعد دوبارہ جلانے پر ایمان لانا بھی جزو ایمان ہوگا۔
الحاصل ملائکہ، انبیاء علیہم السلام، آسمانی کتابیں مرنے کے بعد دوبارہ جلانا،قیامت کا دن ان سب پر ایمان لانافرض ہوگا کوئی شخص جبتک ان سب پر ایمان نہ لائے ہرگز ہرگز مومن نہیں ہوگا اور نہ رضائے مولیٰ حاصل کر سکے گا۔ جو اہم ترین فریضہ انسان ہے بلکہ’’خسر الدنیا والاخرۃ‘‘کامصداق ہوگا۔