طاقت سے باہر تھا کہ ہم بچہ کو دودھ پینا سکھا سکتے۔ پھر روزانہ بچے میں اپنی قدرت کا تماشہ دکھاتے ہیں۔ ایسا ایسا گرتاہے کہ اگر بڑاآدمی گرتا تو سلامت نہ رہتا۔ مگر اپنی قدرت سے ایسا محفوظ رکھتے ہیں کہ انسان دیکھتارہ جاتاہے۔پھر ایسی ضعیف ہستی کو جوان بنا دیتے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ وہ ضعیف کو قوی بنا سکتے ہیں اورپھر جوان ہونے کے بعد بسا اوقات بوڑھا بنا دیتے ہیں تاکہ یہ بھی معلوم ہو جائے کہ جیسا اس کو ضعیف کوقوی بناناآتاہے۔ ایسا ہی قوی کو ضعیف بنانا بھی جانتے ہیں اور بوڑھا بنانے میں ایک اوروہم کا دور کرنا بھی منظور ہوتاہے یہ کہ شاید کوئی یہ سمجھے کہ بچہ جو جوان و طاقتور ہوا ہے۔ محض غذا کھلانے کی وجہ سے ہواہے۔
خداوند تعالیٰ کی قدرت سے نہیں ہوا لہٰذا بوڑھا کر کے دکھاتے ہیں کہ اگرغذا نے اس کو طاقتور بنایا تھا تو اب بھی اس کو خوب غذا کھلاکردیکھو کہ وہ غذا طاقتور بناتی ہے یا نہیں ۔ پس جب مشاہدہ ہو جاتاہے کہ باوجود غذا کھلانے کے ضعیف و ناتوان ہواچلا جاتاہے اورجتنی غذا زیادہ کھاتا ہے۔طاقت تو نہیں بڑھتی مگر بلغم کے ڈھیر لگائے جاتا ہے۔ تو یقین ہو جاتاہے کہ طاقت کا دینا خدا ہی کے قبضہ میں تھا۔ اس کے متعلق ارشاد ہے:’’اﷲ الذی خلقکم من ضعف ثم جعل من بعد ضعف قوۃ ثم جعل من بعد قوۃ ضعفاو شیبۃ ، یخلق مایشاء وھو العلیم القدیر (سورہ روم)‘‘{اﷲ ایسا ہی ہے جس نے تم کو ناتوانی کی حالت میں بنایا پھر ناتوانی کے بعدتوانائی عطاء کی۔ پھر توانائی کے بعدضعف اوربڑھاپا کیا وہ جوچاہتا ہے پیداکرتاہے اور وہ جاننے والا اورقدرت رکھنے والا ہے۔}اول ضعف سے مراد بچپن کی حالت ہے او رقوت سے مراد جوانی اوردوسرے ضعف سے مراد بڑھاپا ہے۔ غرض اس قسم کی سینکڑوں باتیں ہیں جو غور کرنے سے معلوم ہوتی ہیں۔
الحاصل اختلاف فطرت کی صورت میں وہ خرابیاں بھی لازم نہیں آتیں جو مساوات فطرت کی صورت میں لازم آتی تھیں اورخداوند تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات بھی زیادہ نظر آتے ہیں۔ جو مساوات فطرت کی صورت میں نظرنہ آسکتے۔لہٰذ اخدا تعالیٰ نے اختلاف فطرت کی صورت کو اختیارفرمایا۔
پیغمبر کسی دوزخی کو جنتی نہیں بنا سکتے
خداوند تعالیٰ نے تمام مخلوقات کے پیدا کرنے سے بھی پہلے اس بات کا فیصلہ کردیا ہے کہ فلاں شخص دوزخی ہے اورفلاں شخص جنتی ہے۔ غرض تمام دوزخیوں اورجنتیوں کی تعداد ضبط کر دی ہے ۔ اس تعداد میں کمی بیشی ممکن نہیںہے۔ انبیاء علیہم السلام کے تشریف لانے کے بعد اس