الناس ان یؤ منواذاجاء ھم الہدی الا ان قالوا بعث اﷲ بشرارسولا(سورہ بنی اسرائیل)‘‘{اور جس وقت ان لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکی۔ اس وقت ان کو ایمان لانے سے بجز اس کے اور کوئی بات مانع نہیں ہوتی کہ انہوں نے کہا کہ کیا اﷲ تعالیٰ نے بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔}
یعنی ایسا نہیں ہوسکتا اگر رسول آتا تو فرشتہ آتا۔ یہ قول مشرکین عرب کا تھا حضورﷺ کے مقابلہ میں۔ غرض کفار کا عموماً یہی خیال تھا کہ انسان نبی نہیں ہوسکتا۔ اس منصب کے لئے انتخاب ملائکہ ضروری ہے۔
کافروں کی رائے کامنشاء
کفارکے اس خیال کی وجہ یہ تھی کہ نبوت ایک بڑا عظیم الشان مرتبہ ہے۔ لہٰذا اس منصب کے لئے ایسے شخص کو منتخب کرنا چاہئے کہ جس کو اور لوگوں سے خاص طور پر امتیاز حاصل ہو تاکہ اس کو اوروں پرفوقیت ہو ۔ اس لئے جب تک کسی شخص میں ایسا امتیاز نہ ہو کہ جس کی وجہ سے اوروں پر فوقیت رکھتاہو تو اس کو کسی منصب کے لئے منتخب کرنا عقل کے خلاف ہے۔ چہ جائیکہ اس کو منصب نبوت پرمقرر کیاجائے کہ جس سے بڑھ کر کوئی منصب ہی نہیں۔
اس خیال کو دل میں جگہ دینے کے بعد جب کفار انبیاء علیہم السلام کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے تھے۔تو ان کو ان میں کوئی امتیاز نظر نہیں آتاتھا۔کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ وہ انہیں کی طرح کھاتے پیتے ہیں اورانہی کی طرح روزی کی طلب میں بازاروں میں پھرتے ہیں۔ انہی کی طرح بال بچے دار ہیں۔ غرض تمام لوازم بشریت میں مساوی ہیں۔ کوئی خاص امتیاز نہیں رکھتے۔ اس بناء پر وہ ان کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔
قرآن شریف میں اس کی تصریح متعدد آیات میں ہے۔ نمونہ کے طور پرملاحظہ ہو: ’’ماہذا الابشر مثلکم(سورہ مومنون)‘‘{نوح علیہ السلام کی قوم کے رئیسوں نے عام لوگوں سے کہا کہ یہ شخص (یعنی نوح علیہ السلام) بجز اس کے کہ تمہاری طرح کا ایک(معمولی) آدمی ہے اورکچھ (رسول وغیرہ) نہیںہے۔}
’’ماہذاالّابشرمثلکم یأکل مما تأکلون منہ ویشرب مماتشربون (سورہ مومنون)‘‘{حضرت ہود علیہ السلام یا صالح علیہ السلام کی قوم کے رئیسوں نے عام لوگوں سے کہاکہ بس یہ تو تمہاری طرح ایک (معمولی)آدمی ہیں۔(چنانچہ) یہ وہی کھاتے ہیں جو تم کھاتے ہو اوروہی پیتے ہیں جو تم پیتے ہو۔}