کو ٹھیک کردے گی۔ بے شک ایسی قوم کا ٹھیک کرنا بہت ہی مشکل ہوگا۔ کیونکہ وہ بوجہ قوت و شجاعت کے آسانی سے اطاعت قبول نہیں کرے گی۔ لیکن جب ٹھیک ہو جائے گی تو دنیا بھر کی قومیں اس کے آگے سرتسلیم خم کریںگی۔ یہ بات قطعہ عرب ہی میں پائی جاتی تھی۔ تمام قطعہ عرب دنیا بھر کی قوموں سے زیادہ بہادر تھا۔ خصوصاً قوم قریش بہادری میں تمام عرب میں ممتاز تھی لہٰذا مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ آپﷺ کو قریش میں مبعوث کیاجائے۔
آپﷺ کو جو ان لوگوں کی اصلاح میں دقتیں اٹھانی پڑیں۔ وہ محتاج بیان نہیں ہیں۔ مگر اس قوم نے اصلاح پذیر ہونے کے بعد دنیا کی اصلاح کا کام کیا ہے۔ وہ بھی اظہر من الشمس ہے۔ ان لوگوں نے قیصر وکسریٰ کے تخت ہلا دیئے تمام دنیا کو تہ و بالا کر دیا۔ روئے زمین میں کوئی قوم ایسی نہیں تھی جو ان کے مقابلہ میں ثابت قدم رہ سکے۔ بہت تھوڑے عرصہ میں تما م دنیا میں اسلام پھیل گیا۔ مثلاً اگر حضورﷺ کو ہندوستان میں مبعوث کیاجاتاتو ہندوستان کی اصلاح میں آپﷺ کو اتنی دقت پیش نہ آتی جتنی عرب میں پیش آئی۔لیکن اسلام رہتا ہندوستان میں ہی۔ ہندوستان کے حدود سے آگے تجاوز نہ کرتا توگوحضورﷺ کو تو تکلیف کم ہوتی مگر آپﷺ کی بعثت کا جو مقصد تھا(یعنی تمام دنیا میں اسلام پھیلانا) وہ ہرگز حاصل نہ ہوتا۔ کیونکہ ہندوستان کے لوگ اس قابل نہیں تھے کہ بڑی بہادر قوموں کا مقابلہ کرسکتے۔ یہ عرب ہی کا کام تھا کہ فاقوں کے مارے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں۔ لیکن جب تلوار لے کر کھڑے ہو تے ہیں۔ تو پہاڑ ہلا دیتے ہیں۔غرض ان کے کارنامے محتاج بیان نہیںہیں۔
اسی حکمت کو مدنظر رکھتے ہوئے خداوند تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبﷺ کو قطعہ عرب میں مبعوث فرمایا اوران کے ذریعہ سے اسلام دنیا میں پھیلایا۔
تقریر مذکورہ بالا سے بعض مخالفین کا وہ شبہ بھی زائل ہوگیا جو آپﷺ کی بعثت کے عام ہونے پر کیاجاتاہے۔ بوجہ ان نصوص کے جن میں آپﷺ کا خاص عرب کے لئے مبعوث ہونا مذکور ہے۔ جیسا کہ ان دوآیات میں جو اوپرگزر چکی ہیں۔ کیونکہ ان نصوص میں تخصیص باعتبار بعثت اولاً دبالذات کے ہے۔ جیسا کہ اوپر مفصل گزرچکاہے۔ نہ اس وجہ سے کہ آپﷺ باقی لوگوں کے لئے نبی نہیںتھے۔بلکہ آپﷺ کی بعثت کا عام ہونا دلائل سے ثابت ہے۔ جیسا کہ اوپر گزر چکاہے۔
حضورﷺ کے امی ہونے کی حکمت
جب یہ فیصلہ ہوچکا کہ آپﷺ کی بعثت کے لئے قطعہ عرب ہی کا منتخب ہونا مصلحت