معجزات عملیہ
معجزات عملیہ اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص دعویٰ نبوت کر کے ایسے کام کر کے دکھائے کہ سب لوگ اس کے مقابلہ سے عاجز آجائیں۔ کوئی دوسرا ایسے کام کرکے نہ دکھاسکے۔ باقی رہی یہ بات کہ معجزات عملیہ کس نبی کے افضل و اعلیٰ ہیں۔ تو اس کے متعلق بعض انبیاء علیہم السلام کے معجزات کا حضورﷺ کے معجزات سے مقابلہ کرکے دکھاتاہوں۔اس کے بعد اہل انصاف فیصلہ کریں کہ کس کے معجزات افضل و اعلیٰ ہیں۔
معجزات عیسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ
قبل اس کے کہ معجزات کا مقابلہ کرکے دکھاؤں۔ یہ ضروری سمجھتاہوں کہ اس امر کو واضح کردوں کہ معجزات کے اعلیٰ وافضل ہونے کا معیار کیا ہے تاکہ مقابلہ کے بعدآسانی سے معلوم ہوسکے کہ کس کے معجزات اعلیٰ وافضل ہیں۔ معجزہ کے لغوی معنی اوپر گزر چکے ہیں اور اصطلاح میں معجزہ کہتے ہیں ایسے امر کو جو خلاف عادت نبی کے ہاتھ پرظاہر کیاجاتاہے۔ایسی وجہ پر کہ تمام منکرین کو عاجز کرکے دکھادے۔کوئی شخص اس امر میں اس کامقابلہ نہ کر سکے تو جس قدر عادت کے زیادہ خلاف ہوگا۔ اس قدر وصف اعجاز میں اعلیٰ و افضل ہوگا اور جس قدر عادت کے قریب ہو گا اسی قدر صف اعجاز میں کم درجہ کا ہوگا۔ اب اس معیار کے مطابق معجزات عیسیٰ علیہ السلام و معجزات رسول اﷲ ﷺ کا مقابلہ کرکے دیکھو اورفیصلہ کرو کہ معجزات کس کے اعلیٰ تھے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مردے زندہ کئے اور رسول اﷲﷺ نے ایک کھجور کے سوکھے ستون کو زندہ کیا۔ لیکن جو مردے عیسیٰ علیہ السلام نے زندہ کئے وہ پہلے بھی زندہ رہ چکے تھے اورزمانہ دراز تک محل حیات بن چکے تھے۔ مگر درخت کبھی محل حیات نہیں ہوا۔ پس ایک محل حیات میں اعادہ حیات کرنا اتنا مستبعد نہیں ہے جتنا ایسی چیزمیں حیات کو پیدا کرنا مستبعد ہے جو کبھی محل حیات بنی ہی نہ ہو اورلکڑی بھی اگر تر ہوتی تو گووہ بھی محل حیات تو نہیں لیکن تاہم اس کو کسی قدر حیات سے مناسبت ہوتی لیکن لکڑی اورپھر سوکھی اس کا زندہ کرناتو بہت ہی مستعبد ہے۔
الحاصل عیسیٰ علیہ السلام نے مردوں کو زندہ کرنے کے بعد کوئی ایسی بات نہیں دکھائی جو پہلے زمانہ حیات میں ان میں نہ پائی جاتی ہو۔ بلکہ نفس حیات سابقہ ہی کا اعادہ کیا۔ اس کے مقابلہ میں رسول اﷲﷺ اگر سوکھی لکڑی کو صرف ہرادرخت بناکر دکھادیتے تو جب بھی وصف اعجاز میں عیسیٰ علیہ السلام سے کم نہ ہوتے۔بلکہ مساوی ہوتے ۔ کیونکہ دونوں جگہ اعادہ حالت سابقہ علی