تو اب ان دو فائدوں کے ہوتے ہوئے سلسلہ انبیاء علیہم السلام پر عبث ہونے کا الزام لگانا سراسر نادانی ہوگی۔
پیغمبروں کا جان سے زیادہ محبوب ہونا
انسان کے لئے خداوند کی رضا سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ عاشق کی نظر میں محبوب کی رضا سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوا کرتی۔حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی محبوب کی رضا کو زیادہ محبوب سمجھتاہے۔ اس لئے اس کی رضا میں اپنی جان کو بھی قربان کر دیتاہے۔ یہ بات تو مجازی محبوبوں کے عاشقوں میں بھی موجود ہے۔تو بھلا عاشقان محبوب حقیقی کے نزدیک رضائے محبوب سے بڑھ کر کیاچیز ہوگی۔ ایک جان نہیں بلکہ ہزار جانوں کو بھی اس کی رضا پر قربان کردیں۔ اس لئے حضورﷺ نے فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ خداوند تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قربان ہو جاؤںپھر زندہ کیا جاؤں پھر قربان ہو جاؤں۔
چونکہ اس رضا کے حصول کے ذریعہ فقط انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں لہٰذا وہ بھی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہونے چاہئیں۔ حتیٰ کہ جان سے بھی اس لئے کہ جو مقصد دیگر مقاصد سے زیادہ محبوب ہو اس کا ذریعہ بھی باقی مقاصد سے زیادہ محبوب ہے۔ تو اس کا ذریعہ بھی جان سے زیادہ محبوب ہونا چاہئے۔ مجنون سے پوچھئے کہ جو شخص لیلیٰ کے وصل کا ذریعہ ہو وہ اس کے نزدیک کس قدر محبوب ہوگا۔ انبیاء علیہم السلام چونکہ محبوب حقیقی کے وصل کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ جان سے بھی زیادہ محبوب ہونے چاہئیں۔
جس قدر مصائب انسان پرمرنے کے بعد آنے والے ہیں۔ وہ دنیاوی مصائب سے بدرجہا زیادہ اورسخت ہیں۔ ان سے بچنے کے ذریعہ بھی انبیاء علیہم السلام کے سوا دوسرا نہیں ہے۔ کوئی حکیم یاڈاکٹر نہیں بتاسکتا کہ قبر کا اندھیرا دور کرنے کا کیاعلاج ہوگا یا اس کی تنگی کیونکر رفع ہو گی یا وحشت سے بچنے کا کیا ذریعہ ہوگا۔ یا میدان حشر میں آفتاب کی گرمی کیونکر جائے گی یا پل صراط سے گزرنے کے لئے سواری کیونکر میسر ہوگی۔ مگر انبیاء علیہم السلام کی تعلیم میں یہ کمال ہے کہ ہزارہا سال پہلے ان تمام مصائب سے بچنے کا علاج بتا دیتے ہیں اور پھر ان کے علاج میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ نہایت ہی آسان وسستا ہوتا ہے تو اس اعتبار سے بھی انبیاء علیہم السلام تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہونے چاہئیں۔الحاصل جلب منافع و دفع مضار دونوں کے اعتبار سے انبیاء علیہم السلام کا وجود اقدس تمام اشیاء سے زیادہ محبوب ہونا چاہئے۔