خدا وند کی ذات اقدس کو پوشیدہ کر دیتا ہے۔ بلکہ حقیقت اس حجاب کی انسان کا ضعف ادراک ہے جس کی وجہ سے باوجود کمال ظہورنورذات کے انسان ادراک سے عاجز ہے اور یہی ضعف ادراک کاحجاب تھا جو موسیٰ علیہ السلام کو رویت سے مانع ہواتھا اور یہ مانع جنت میںدور کر دیا جائے گا اور اہل جنت کو خداوند تعالیٰ کی رؤیت کی قوت عطاء کردی جائے گی۔(۳) فرشتہ کو بھیج کر اس کے ذریعہ سے جو کچھ منظور ہو نبی کو پہنچا دیا جائے۔
غرض خداتعالیٰ جب مقربین کو اپنی رضاوغیر رضا کی اطلاع دیتے ہیں تو ان تین طریقوں کے ساتھ دیتے ہیں۔ بالمشافہ یا بالمعاینہ کسی سے بات نہیں کرتے اور :’’انہ علیّ حکیم‘‘میں دونوں امروں (یعنی بالمشافہ بات نہ کرنے اورتین طریقوں سے بات کرنے) کی علت بیان فرمائی ہے۔ پہلے امریعنی بالمشافہ بات نہ کرنے کی علت (علی) ہے۔ یعنی وہ بڑا عالی شان ہے۔ انسان حالت موجودہ میں بوجہ ضعف ادراک اس سے بالمشافہ بات کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور دوسرے امر یعنی تین طریقوں سے بات کرنے کی علت(حکیم) ہے۔ یعنی وہ بڑی حکمت والا ہے۔ اس لئے اپنے بندوں کی مصلحت کا خیال فرما کر تین طریقے کلام کے مقرر فرما دیئے ہیں۔ کیونکہ اگر کوئی طریقہ بھی کلام کا نہ ہوتا اور یہ بندوں کی مصلحت کے خلاف ہے۔ لہٰذا اپنی حکمت سے بندوں کی مصلحت کو بھی فوت نہیں ہونے دیا۔ بلکہ رضا وغیر رضا کے معلوم کرنے کے تین طریقے مقرر فرمادیئے اورعلو شان کو بھی محفوظ رکھا۔
نبوت کی تکمیل کے لئے ملائکہ کے انتخاب کی ضرورت
چونکہ نبی کے پاس علم آنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی فرشتہ کے ذریعہ سے نبی کو علم دیا جائے اور تمام طریقوں سے زیادہ واضح اور آسان طریقہ یہی ہے۔خصوصاً آسمانی کتابیں ہمیشہ اسی طریقہ سے بھیجی گئی ہیں۔ اس لئے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ملائکہ میں سے بھی بعض حضرات کو اس منصب کے لئے منتخب کیاجائے تاکہ احکام خداوندی کو رسولوں تک پہنچادیں۔ جیسا کہ رسولوں کو منتخب کیاگیا کہ احکام خداوندی کو عام لوگوں تک پہنچائیں۔
غرض سلسلہ نبوت و رسالت میں دو انتخابوں کی ضرورت ہے۔ ایک انتخاب ملائکہ جو احکام کورسولوں تک پہنچائیںاور دوسرا انتخاب معصوم انسانوں کا جو احکام عام لوگوں تک پہنچائیں۔ ان دونوں انتخابوں کے مجموعہ سے نبوت کی تکمیل ہوگی(انہی دو انتخابوںکے متعلق ارشاد ہے):’’اﷲ یصطفی من الملائکۃ رسلا ومن الناس ان اﷲ سمیع بصیر